شام: متنازعہ پارلیمانی انتخابات کا انعقاد
13 اپریل 2016شام کے مختلف علاقوں میں متنازعہ پارلیمانی انتخابات کی پولنگ جاری ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ڈھائی سو نشستوں کے لیے ساڑھے تین ہزار امیدوار میدان میں ہیں۔ پولنگ صرف ان علاقوں میں ہو رہی ہے، جو حکومت کی زیر کنٹرول ہیں۔ ان انتخابات میں صدر بشارالاسد کی جماعت کے علاوہ بھی امیداور حصہ لے رہے ہیں۔ اندازے کے مطابق بعث پارٹی کے جیتنے کے امکانات روشن ہیں۔
شامی حزب اختلاف کے تمام دھڑوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔ ان میں وہ گروپ بھی شامل ہیں، جنہیں دمشق حکومت کسی حد تک تسلیم بھی کرتی ہے۔ اسی طرح بیرون ملک ہجرت کر جانے والے چار ملین سے زائد شامی مہاجرین کو بھی رائے شماری میں حصہ لینے کا حق نہیں دیا گیا۔
اقوام متحدہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ نتائج کو کسی صورت تسلیم نہیں کرے گی کیونکہ باغیوں کے زیر اثر علاقوں میں یہ انتخابات نہیں کرائے جا رہے۔ اقوام متحدہ نے دمشق حکومت سے درخواست کی ہے کہ امن عمل کے دائرے میں رہتے ہوئے اگلے اٹھارہ ماہ کے دوران پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کرائے جائیں۔
اقوام متحدہ کےخصوصی مندوب برائے شام اسٹیفن ڈی مستورا نے ابھی حال ہی کہا تھا کہ چودہ مارچ سے مذاکرات کا آغاز کے بعد اٹھارہ ماہ کے اندر اندر شام میں انتخابات کروائیں جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ انتخابات اقوام متحدہ کی نگرانی میں کروائیں جائیں گے۔ امریکا کی جانب سے بھی ان انتخابات کی شفافیت پر آواز اٹھائی گئی ہے۔
شام کے چودہ صوبے ہیں اور ملک کا تقریباً ساٹھ فیصد حکومتی کنٹرول میں ہے۔ اس ملک کے گنجان آباد مغربی اور وسطی علاقے ہیں۔ شامی پارلیمان میں کل دو سو پچاس نشستیں ہیں۔ شام گزشتہ پانچ برسوں سے خانہ جنگی کا شکار ہےاور اس دوران پانچ لاکھ سے زائد افراد اس تنازعے کی نذر ہو چکے ہیں۔ فروری کے آخر سے شام میں فائر بندی پر عمل کیا جا رہا ہے اور اس دوران اس معاہدے کی خلاف ورزی کے اکا دکا واقعات بھی منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔
شام میں پارلیمانی انتخابات ایک ایسے وقت پر ہو رہے ہیں، جب بدھ کو سوئس شہر جنیوا میں شامی تنازعے کے فریقین کے مابین بلا واسطہ مذاکرات کا ایک نیا مرحلہ شروع ہونے جا رہا ہے۔