شام میں یورپی فائٹرز کی تعداد میں اضافے پر تشویش
23 جنوری 2014پیرس سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ان یورپی ملکوں میں حکام کو تشویش ہے کہ یہ جنگجو عناصر شام سے واپسی پر ان ریاستوں میں سلامتی کے بڑے خطرات کی وجہ بن سکتے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق شام کے تین سالہ خونریز تنازعے میں حصہ لینے والے کئی یورپی جہادی وہاں پہلے ہی مارے جا چکے ہیں۔ مختلف یورپی ملکوں کے حکام اور سکیورٹی ماہرین کے مطابق جہادیوں کے علاوہ عسکریت پسند زیادہ سے زیادہ تعداد میں ابھی تک شام کا رخ کر رہے ہیں۔
فرانسیسی وزیر داخلہ مانوئل والس نے ابھی حال ہی میں کہا تھا کہ شام میں لڑنے والے فرانسیسی شہریوں کی تعداد ڈھائی سو کے قریب ہے، جن میں سے کم از کم اکیس ہلاک ہو چکے ہیں۔۔
فرانسیسی وزیر داخلہ کے بقول ان ہلاک شدگان میں دو ایسے نوجوان مرد بھی شامل ہیں، جن کا تعلق متوسط طبقے کے ایک سفید فام فرانسیسی گھرانے سے تھا اور جنہوں نے کچھ عرصہ قبل ہی اسلام قبول کیا تھا۔ مانوئل والس نے گزشتہ اتوار کے روز کہا تھا، ’’یہ صورت حال میرے لیے بہت پریشان کن ہے۔ میرے لیے یہ بات وہ سب سے بڑا خطرہ ہے، جس کا ہمیں آئندہ برسوں میں سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘
اسی طرح بیلجیم کے وزیر خارجہ ڈیڈیئر رائنڈرز کے مطابق شام میں جاری خانہ جنگی میں اب تک بیلجیم کے بیس شہری مارے جا چکے ہیں۔ بیلجیم کے ماہرین کے بقول اس وقت شام میں جہادی عناصر کے طور پر لڑنے والے بیلجیم کے شہریوں کی تعداد دو سو سے بھی زائد بنتی ہے۔
جرمن خفیہ اداروں کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اب تک جرمنی سے 270 کے قریب مقامی باشندے شام کی لڑائی میں حصہ لینے کے لیے مشرق وسطیٰ کی اس ریاست کا رخ کر چکے ہیں۔ ان میں سے اب تک 15 جرمن شہری مارے بھی جا چکے ہیں۔
برطانیہ میں انسداد دہشت گردی کے لیے کام کرنے والے غیر حکومتی ادارے Quilliam فاؤنڈیشن کے سینئر ریسرچر اسامہ حسن کہتے ہیں کہ برطانیہ سے آج تک جو جہادی عناصر شام جا چکے ہیں، ان کی تعداد کا اندازہ دو سو اور بارہ سو کے درمیان لگایا جاتا ہے۔
اسامہ حسن نے اے ایف پی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ ان برطانوی جہادیوں کی ایک بڑی تعداد نے اس لیے شام کا رخ کیا ہے کہ وہاں صدر بشار الاسد کی حکومت کو اقتدار سے علیحدہ کرنے میں مدد دے سکیں۔ انہوں نے کہا کہ لندن حکومت کی یہ تشویش اب درست ثابت ہو رہی ہے کہ مستقبل میں ایسے فائٹرز کی برطانیہ واپسی کے ساتھ ان کی جہادی صلاحیتیں بھی برطانیہ پہنچ جائیں گی۔ برطانوی سکیورٹی اداروں کا کہنا ہے کہ وہ اب تک برطانیہ پر حملوں کے ایسے کئی منصوبوں کا پتہ چلا چکے ہیں، جن کا تعلق شام سے بنتا تھا۔
اسامہ حسن کے بقول، ’’یہ رجحان اس لیے بہت حیران کن نہیں ہے کہ ماضی میں افغانستان اور پاکستان کے حوالے سے بھی ایسے منصوبے دیکھنے میں آ چکے ہیں۔‘‘
فرانسیسی ماہر تعلیم اور اسلامی امور کے ماہرMathieu Guidere کا کہنا ہے کہ یہ یورپی جہادی شام کی اعتدال پسند اپوزیشن کے لیے بوجھ بھی ہیں اور شرمندگی کا باعث بھی۔ اس لیے کہ شام اپوزیشن کے اعتدال پسند رہنماؤں نے یورپی حکومتوں کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ایسے جہادیوں کو دمشق حکومت کے خلاف اپوزیشن کا حصہ نہیں بننے دیں گے۔
اس فرانسیسی ماہر تعلیم کے بقول یورپ سے آنے والے ان جہادیوں کو شامی اپوزیشن کے القاعدہ سے قربت رکھنے والے مسلح گروپوں کی طرف سے خوش آمدید کہا جا رہا ہے۔ ان گروپوں میں النصرہ فرنٹ اور اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا جیسی مسلح اسلام پسند تنظیمیں نمایاں ہیں۔