شام کی تعمیرنو پر لاگت ڈیڑھ سو ارب ڈالر سے زائد، عالمی بینک
14 اپریل 2016واشنگٹن سے جمعرات 14 اپریل کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق ورلڈ بینک کے صدر جِم یونگ کِم نے آج کہا کہ اس وقت شامی تنازعے کے حل کے لیے جو کوششیں کی جا رہی ہیں، ان کی کامیاب تکمیل اور قیام امن کے بعد مشرق وسطیٰ کی اس ریاست کی تعمیر نو کے لیے جو مالی وسائل درکار ہوں گے، ان میں اس خطے کی ریاستیں بھی اپنا کردار ادا کریں گی۔
تاہم جِم یونگ کِم نے یہ بھی کہا کہ مشرق وسطیٰ کی تیل کی دولت سے مالا مال ریاستوں کے لیے آمدنی کا بڑا ذریعہ اسی تیل کی عالمی منڈیوں میں فروخت ہے۔ اس لیے یہ خدشہ اپنی جگہ ہے کہ ان عرب ملکوں کو تعمیر نو میں شام کا ہاتھ بٹانے کے لیے مالی مدد کرتے ہوئے کافی حد تک مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ ورلڈ بینک کے صدر کے مطابق اس کی بڑی وجہ عالمی منڈیوں میں تیل کی بہت کم قیمتیں ہوں گی۔
ورلڈ بینک کے صدر نے واشنگٹن میں عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے موسم بہار کے اجلاسوں کے بعد ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’مجھے اس وجہ سے بڑی تشویش ہے کہ ڈونر ممالک اس طرح کی مالی امداد دینے کے قابل شاید نہیں ہوں گے، جو وہ اس وقت دے سکتے تھے، اگر عالمی منڈیوں میں تیل کی فی بیرل قیمت 100 ڈالر ہوتی۔‘‘
شام میں پانچ سال سے جاری اور لاکھوں انسانی ہلاکتوں کا باعث بننے والی خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کی قیادت میں امن عمل کے تحت مذاکرات کا نیا دور بدھ 13 اپریل کو شروع ہوا تھا۔ تاہم شام کے مختلف حصوں میں دوبارہ شدت اختیار کرتی جا رہی لڑائی کے باعث یہ تحفظات اپنی جگہ ہیں کہ اس تنازعے کو سفارت کاری کے ذریعے حل کرنا کتنا مشکل ہے۔
جنگ سے بری طرح تباہ ہو چکے شام کے لیے عالمی بینک نے ابھی تک اس بارے میں اپنے کوئی اندازے تو نہیں لگائے کہ اس ملک کی تعمیر نو پر کل کتنی لاگت آئے گی لیکن ورلڈ بینک کے صدر جِم یونگ کِم نے کہا کہ انہوں نے ایسے اندازے سنے ہیں کہ اس عمل پر 150 بلین ڈالر سے زائد کی لاگت آئے گی۔
عالمی بینک کے صدر نے مزید کہا کہ اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے روایتی طور پر بڑی امدادی رقوم عطیہ کرنے والے کئی ممالک کو بین الاقوامی منڈیوں میں تیل کی بہت کم قیمتوں کے باعث اپنے اپنے سالانہ بجٹ میں خسارے کا سامنا ہے۔
جِم یونگ کِم کے بقول، ’’اس کا مطلب یہ ہو گا کہ عالمی بینک اور علاقائی ترقیاتی بینکوں کو اس عمل میں زیادہ بڑا کردار ادا کرنا پڑے گا اور اس کے لیے انہیں بین الاقوامی مالیاتی منڈیوں پر بھی اثر انداز ہونا پڑے گا۔‘‘