شنگھائی عالمی نمائش: چینی تہذیب کی مظہر
2 اپریل 2010یوں تو عالمی نمائش کی تاریخ دیکھیں تو انیسویں صدی میں سلطنت برطانیہ کے دور میں لندن کی سن 1851 میں ہونے والی نمائش اس انداز کی پہلی ورلڈ ایکسپو قرار دی گئی ہے۔ لیکن جدید دور میں اِس کی ایک نئے انداز میں شروعات کا سال سن 1986ء قرار دیا جاتا ہے تب ورلڈ ایکسپو کینیڈا کے شہر وینکوور میں لگائی گئی تھی۔ تب سے ہی یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ ہر دو سال بعد منعقد کی جائے گی۔
ورلڈ ایکسپو کے حوالے سے یہ اہم ہے کہ یہ دنیا کی نمائندہ ہو اور غیر تجارتی بنیادوں پر اِس کا انعقاد کیا جائے۔ میزبان ملک کا نام اور شہر کی منظوری انٹرنیشنل ورلڈ ایکسپو کمیٹی سے حاصل ہونا ضروری ہے۔ ورلڈ ایکسپو کو ایک ایسا پلیٹ فارم قرار دیا گیا جس پر عالمی اقتصادیات کی ترویج کے لئے نئے نظریات کو زیر بحث بھی لایا جا سکے۔ اس کے علاوہ دوران نمائش سائنس، کلچر اور ٹیکنالوجی میں فروغ اور اختراعات کو بھی عام سطح تک متعارف کروانے کے ساتھ ان پر مذاکروں اور فورم کا اہتمام بھی کیا جا سکے۔
اِس کی معلوم تاریخ ایک سو ساٹھ سال کے قریب ہو گئی ہے اور یہ اقتصادیات کی اولمپک گیمز خیال کی جاتی ہے۔ نمائش تواتر سے مختلف شہروں میں سجتی رہی ہے لیکن اس کی فریکوئنسی ایک نہیں رہی۔ کبھی مسلسل ہر سال اور کبھی دو سال بعد یا تین سال بعد، بعض اوقات چار چار سال کا وقفہ بھی ریکارڈ کیا گیا۔ ورلڈ ایکسپو کو ملکوں کے درمیان اقتصادی سرگرمیوں کا محور خیال کیا گیا ہے۔
رواں سال ورلڈ ایکسپو چینی شہر شنگھائی میں عام لوگوں کے لئے کھولی جائے گی۔ یکم مئی سے لے کر اکتیس اکتوبر تک دنیا بھر سے لاکھوں افراد اِس نمائش کو دیکھنے شنگھائی پہنچیں گے۔ شنگھائی میں ورلڈ ایکسپوسوا پانچ مربع کلو میٹر میں لگائی گئی ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس نمائش کو دیکھنے کے لئے اندرون ملک سے بھی لوگ پہنچیں گے۔ مختلف ملکوں کے سربراہوں کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔ جن صدور یا وزرائے اعظم نے نمائش دیکھنے کی حامی بھری ہے، اُن کی تعداد ایک سو کے قریب ہے۔
سن 2008 کی ورلڈ ایکسپو کا میزبان ملک اسپین تھا۔ سن 2012 کی نمائش کا میزبان جنوبی کوریا ہو گا۔ اس کے بعد یہ نمائش تین سال کے وقفے کے ساتھ سن 2015 میں یورپی ملک اٹلی کے تجارتی اور فیشن انڈسٹری کے شہر میلان میں سجائی جائے گی۔ اس نمائش میں ایک سال بڑھ جانے کو ختم کرنے کے لئے ایک سال بعد سن 2016 میں ترکی کو حق میزبانی ملا ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: ندیم گِل