طالبان۔امریکا ڈیل اور ’افغان گریٹ گیم‘
29 اگست 2019پشاور میں برسوں سے مقیم بعض صاحبِ حیثیت افغانوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ان کے مسائل میں اضافہ ہوتا گیا ہے۔ اس لیے اس بار اُن کی اولین خواہش ہوگی کہ اگر افغانستان میں واقعی جنگبندی ہو جاتی ہے تو ان کی نئی نسل واپس اپنے ملک جا کر زندگی گزار سکے۔
لیکن انہیں جلد ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ کئی لوگوں کو خدشہ ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد وہاں مختلف مسلح گروہ نوے کے دہائی کی طرح ایک دوسرے کے خلاف نکل پڑیں گے اور شاید امن پھر بھی قائم نہ ہو سکے۔
ناصر باغ کے تاجر محمد امین کہتے ہیں کہ افغان نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد واپس جانے لیے بے تاب ہے لیکن وہاں ایک بڑا مسئلہ بارودی سرنگوں کا بھی ہے۔ ان کی صفائی نہ ہونے تک یہ سرنگیں ان کے لیے مستقل خطرہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ، ''ہمارے بچے یہاں پیدا ہوئے اور یہاں پڑھ رہے ہیں۔ اس لیے ہم جیسے لوگوں کو افغانستان میں واپس جانے میں مشکلات بہرحال آئیں گی۔ ہم ایک عرصے سے پشاور میں تجارت کرتے آئے ہیں۔ امن معاہدہ ہو بھی جائے تو یہاں کاروبار سمیٹنے میں وقت لگے گا۔‘‘
لیکن بعض تجزیہ نگاروں کی نظر میں اگر طالبان کے ساتھ معاہدہ اور پھر ستمبر میں افغانستان میں صدارتی انتخابات ہو جاتے ہیں تو اس سے بہتری کی امید پیدا ہوگی۔
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ انٹرنیشنل ریلشنز کے سابق سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عدنان سرور خان کہتے ہیں کہ اس بار افغانستان میں پائیدار امن کی امید اس لیے بھی ہے کیونکہ ان مذاکرات میں افغانوں کی روایات، اسلامی کلچر اور معاشی حالات کو سامنے رکھ کر آئیندہ کا لائحہ عمل طے کیا جارہا ہے۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر یہ سب کسی ’گریٹ گیم‘ کا حصہ ہے تو اِس کے اچھے نتائیج نہیں نکلیں گے۔
پاکستان اور افغانستان کےتعلقات میں دہائوں سے خاصا اتار چڑھاؤ رہا ہے۔ دونوں ملکوں میں اربوں ڈالر کی تجارت ہو سکتی ہے لیکن سرحدی اختلافات اور الزام تراشی کے ماحول میں اس شعبے میں وہ ترقی نہیں ہو سکی جس کی گنجائش ہے۔
بعض حلقوں کو اس بات پر سخت تحفظات ہیں کہ قیام امن اور افغانوں کی معاشی بہتری کے لیے طالبان کی کیا صلاحیتیں ہیں اور اگر وہ اقتدار میں آ گئے تو ملک کو آگے کیسے لے کر چلیں گے۔