افغان طالبان پڑوسی ممالک سے تعلقات استوار کرنے پر مجبورکیوں؟
30 جنوری 2024برسلز میں قائم اس کرائسز گروپ یا تھنک ٹینک کی تازہ ترین رپورٹ میں اس بارے میں بھی جائزہ پیش کیا گیا ہے کہ زیادہ تر مغربی طاقتوں سے الگ تھلگ طالبان غیر ملکی دارالحکومتوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری جان افغانستان کے پڑوسی ممالک جیسے کہ چین، پاکستان اور ایران سقوطِ کابل اور دوبارہ حکومت میں آنے والی طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات میں بہتری اور مختلف شعبوں میں قریبی تعاون کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔
اس کرائسز گروپ سے منسلک ایک تجزیہ کار ابراہیم باہیس کا خیال ہے کہ افغانستان کے پڑوسی ممالک کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ تعلقات استوار کریں۔ اس کا استدلال ابراہیم باہیس پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں، ''سرحد پارعسکریت پسندی جیسے بڑھتے ہوئے مسائل، دہشت گردی اور پانی کے تنازعات وسیع البنیاد علاقائی سلامتی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ خاص طور سے ماضی کے خوفناک علاقائی عدم استحکام سے بچنے کے لیے یہ تعاون ضروری ہے۔‘‘
معاشی عنصر
ابراہیم باہیس کے مطابق سکیورٹی کے علاوہ ایک عنصر اس ضمن میں غیر معمولی کردار ادا کرتا ہے اور اس کا تعلق ہے افغانستان کے ہمسایہ ممالک کی معیشت سے۔ ہندو کش کی اس ریاست کے پڑوسی ممالک اور اس پورے خطے کی ریاستوں کی حکومتوں کو کابل میں طالبان حکومت کے ساتھ باہمی تعلقات استوار کر کے اپنی معیشت کو فائدہ پہنچانے کا موقع مل سکتا ہے اور یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے ان ممالک کی طرف سے افغانستان کی موجودہ طالبان حکومت کی طرف راہ و رسم بڑھانے کی کوششوں کی۔ معاشی بنیادوں پر تعلقات کی بہتری میں پیش رفت سے یہ ممالک افغانستان میں طالبان حکومت کے ساتھ رابطے کے طریقے تلاش کر رہے ہیں اور اس طرح ان کا کابل پر اثر و رسوخ بھی بڑھے گا۔
افغان عوام کے حق میں
برسلز میں قائم اس کرائسس گروپ کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان سب کے نتائج یہ نکلیں گے کہ مغربی ممالک افغانستان اور اس خطے میں ایسی علاقائی کوششوں کی حمایت کرسکتے ہیں جن سے باہمی تعاون اور اقتصادی انضمام کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ یا کم از کم اس سے علاقائی سپورٹ کو مسدود کرنے کے امکانات سے گریز کیا جا سکتا ہے۔
اس وقت طالبان حکومت ملک میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر پابندیاں عائد کرنے کی وجہ سے مغربی دنیا سے الگ تھلگ ہے۔ افغانستان میں لڑکیوں کو صرف چھٹی جماعت تک اسکول جانے کی اجازت ہے اور مزید یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں۔ یہ وہ چند بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے جس کے سبب طالبان حکومت کو کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا۔
ک م/ ع آ(ڈی پی اے)