درجنوں افغان فوجيوں کو پاکستان ميں پناہ دی گئی، پاکستانی فوج
26 جولائی 2021افغانستان کے درجنوں فوجی طالبان کے حملوں کے باعث اپنی پوسٹيں چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور انہوں نے پاکستان ميں پناہ لی۔ پاکستانی فوج نے اس بارے ميں پير کو ايک بيان جاری کيا، جس ميں تصديق کی گئی ہے کہ چھياليس فوجيوں کو پناہ فراہم کی گئی ہے۔ چترال کے قريب واقع سرحد پار افغان فوج کی چوکيوں پر طالبان کی چڑھائی کے پيش نظر ان فوجيوں نے اپنے کمانڈر کی قيادت ميں سرحدی گزر گاہ پر پاکستانی حکام سے مدد طلب کی تھی۔ پاکستانی فوج کے مطابق کابل حکومت کے ساتھ مشاورت کے بعد اتوار کی شب ان فوجيوں کو پاکستان داخلے کی اجازت دے دی گئی۔
امریکا کا طالبان کے خلاف افغان فورسز کی مدد کا وعدہ
فوجی بيان ميں کہا گيا ہے، ''فوجی اقدار کے تحت افغان دستوں کو کھانے پينے کی اشياء، سر پر چھت اور طبی امداد فراہم کی گئی۔‘‘ بتايا گيا ہے کہ کاغذی کارروائی کے بعد اور پروٹوکول کے تحت فوجيوں کو واپس ان کے ملک روانہ کر ديا جائے گا۔ جولائی ميں اس سے قبل بھی پينتيس افغان فوجیوں نے پاکستان ميں پناہ کے ليے سرحد پار کی تھی۔ طالبان کی پيش قدمی کے تناظر ميں سرحدی علاقوں ميں تعينات افغان فوجی کئی مواقع پر پناہ کے ليے پاکستان، تاجکستان اور ايران جا چکے ہيں۔
افغانستان بھر ميں طالبان کی پيش قدمی
ان دنوں افغانستان سے غير ملکی افواج کے انخلاء کا عمل جاری ہے۔ ايسے ميں طالبان نے اپنے حملے بڑھا ديے ہيں اور ان کا دعوی ہے کہ وہ ملک کے اسی فيصد علاقوں پر قابض ہيں۔ کابل حکومت ايسے الزامات مسترد کرتی ہے مگر مبصرين اس پر متفق ہيں کہ مجموعی طور پر لگ بھگ چار سو اضلاع ميں سے نصف پر اب طالبان قابض ہيں۔
مستقبل قریب کا افغانستان: پاکستان اور ایران کے خدشات
يہ پيش رفت ايک ايسے موقع پر سامنے آئی ہے، جب افغانستان اور پاکستان کے مابين کشيدگی بڑھ گئی ہے۔ کابل حکومت اپنے ملک ميں امن و امان کو پاکستانی فوجی اسٹيبلشمنٹ کے کردار سے جوڑتی ہے۔ اس کا ايک عرصے سے الزام ہے کہ پاکستان افغان طالبان کو اپنے ہاں پناہ گاہيں فراہم کرتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان اس الزام کو رد کرتا ہے۔ پاکستان نے افغان امن عمل ميں کليدی کردار ادا کيا ہے اور خود بھی اس جنگ سے کافی زيادہ متاثر ہوا ہے۔
افغان فورسز کا پہلا کام طالبان کی پیش قدمی روکنا ہے، لائڈ آسٹن
افغانستان ميں شہريوں کی ہلاکت کا تناسب سینتالیس فیصد بڑھ گيا
دريں اثناء اقوام متحدہ کی ايک رپورٹ کے مطابق رواں سال کی پہلی ششماہی کے دوران افغانستان ميں جاری پر تشدد کارروائيوں ميں ہلاک اور زخمی ہونے والے شہريوں کا تناسب پچھلے سال اسی عرصے کے مقابلے ميں سينتاليس فيصد بڑھ گيا ہے۔ يہ انکشاف پير کو جاری کردہ ايک رپورٹ ميں کيا گيا ہے۔ جنوری تا جون 1,659 افغان شہری ہلاک اور 3,254 زخمی ہوئے۔ افغانستان سے غير ملکی افواج کا انخلاء مئی ميں شروع ہوا اور تب سے جون تک 783 سويلين ہلاک اور 1,609 زخمی ہوئے۔ اقوام متحدہ نے خبردار کيا ہے کہ اگر پرتشدد کارروائياں نہ رکيں، تو سن 2021 مسلح افغانستان تنازعے کا سب سے خونريز سال ثابت ہو سکتا ہے۔
امریکا فضائی حملے جاری رکھ سکتا ہے
امريکا طالبان کے خلاف جنگ ميں فضائی حملوں کی صورت ميں افغانستان کی مدد جاری رکھے گا۔ يہ بيان امريکی فوج کی مرکزی کمان کے سربراہ جنرل کينتھ مک کينزی نے کابل ميں گزشتہ روز ديا۔ ان کے بقول طالبان کے حملوں کے تناظر ميں پچھلے چند دنوں کے دوران امريکا نے فضائی حملے شروع کر رکھے ہيں اور اگر طالبان نے اپنی پرتشدد کارروائياں ترک نہ کيں، تو جوابی فضائی حملے بھی جاری رہيں گے۔ عسکری ماہرين کے مطابق حاليہ چند ہفتوں ميں طالبان اتنے زيادہ علاقوں پر قابض اس ليے ہوئے کيونکہ افغان دستوں کو امريکی فضائيہ کی مدد حاصل نہیں تھی۔ طالبان کی پيش قدمی روکنے کے ليے امریکی فضائی حملوں کا مرکزی کردار ہے۔
ع س / ا ا (روئٹرز، ڈی پی اے)