عالمی رہنماؤں کا اسرائیل اور ایران سے تحمل کا مطالبہ
19 اپریل 2024ایران نے جمعے کے روز مبینہ اسرائیلی حملے کے بعد عارضی طور پر بند کیے گئے ملکی ہوائی اڈوں کو دوبارہ کھول دیا ہے۔ ایرانی حکام نے دھماکوں کی اطلاعات کے بعد ابتدائی طور پر تہران، شیراز اور اصفہان کے ہوائی اڈوں کو بند کر دیا تاہم اب یہ دوبارہ کام کرتے نظر آ رہے ہیں۔
فلائٹ ٹریکنگ ویب سائٹ فلائٹ ریڈار ٹوئنٹی فورکے مطابق ایران نے مبینہ حملے کے بعد تین ہوائی اڈوں کو بند کر دیا تھا اور اپنی فضائی حدود کے مغربی جانب سے پروازیں کلیئر کر دی تھیں۔ یو ایس فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن ڈیٹا بیس کے ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہوائی اڈے اور فضائی حدود دوبارہ کھل گئے ہیں۔
اس سے قبل فلائٹ ریڈار ٹوئنٹی فور نے اطلاع دی تھی کہ منگل کے بعد سے دبئی سے جانے اور آنے والی 1,478 پروازیں منسوخ کر دی گئی تھیں، جو کہ یومیہ پروازوں کا تقریباً 30 فیصد بنتا ہے۔
ایران کی جوہری تنصیبات کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، آئی اے ای اے
اقوام متحدہ کی جوہری نگرانی سے متعلق تنظیم انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے جمعے کے روز کہا ہے کہ دھماکوں کی ابتدائی اطلاعات کے بعد ایرانی جوہری تنصیبات کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔ ایجنسی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کہا، "آئی اے ای اے اس بات کی تصدیق کر سکتی ہے کہ ایران کی جوہری تنصیبات کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔"
اس عالمی ایجنسی کا مزید کہنا تھا کہ ادارے کے سربراہ رافیل گروسی ''ہر کسی سے انتہائی تحمل کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں اور اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ جوہری تنصیبات کو کبھی بھی فوجی تنازعات میں نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔‘‘ ایرانی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ اصفہان کے ہوائی اڈے کے قریب اور آٹھویں شکاری آرمی ایئر بیس کے قریب دھماکے ہوئے ہیں۔ ایران کی تسنیم خبر رساں ایجنسی نے اطلاع دی ہے کہ اصفہان میں جوہری تنصیبات ''مکمل طور پر محفوظ‘‘ ہیں۔
ہم اصفہان کی ایٹمی تنصیب کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
وسطی ایران میں واقع اصفہان میں قائم جوہری تنصیبات چین کے فراہم کردہ تین عدد چھوٹے ریسرچ ری ایکٹروں پر مشتمل ہیں۔ یہ ایران کے سویلین جوہری پروگرام کے لیے ایندھن کی پیداوار اور دیگر سرگرمیاں بھی سنبھالتی ہیں۔ فروری میں ایران نے اعلان کیا تھا کہ وہ اصفہان میں ایک چوتھا جوہری ریسرچ ری ایکٹر بنا رہا ہے، جس کے بارے میں سرکاری میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ اس میں ایندھن کی پیداوار اور جوہری مواد کے ٹیسٹوں سمیت متعدد ایپلی کیشنز ہوں گی۔
بین الاقوامی ماہرین ایران کے جوہری پروگرام پر تنقید کرتے آئے ہیں کہ یہ پروگرام بالآخر جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش میں استعمال ہو سکتا ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے اور اس کا جوہری پروگرام صرف شہری استعمال کے لیے ہے۔ اصفہان میں زیر زمین یورینیم کی افزودگی کی ایک سہولت گاہ بھی ہے، جو بار بار تخریب کاری کا نشانہ بنتی رہی ہے۔
عالمی رہنماؤں کی طرف سے تحمل کی اپیل
عالمی رہنماؤں نے جمعے کے روز اسرائیل کے ایران پر مبینہ حملے کے بعد خطے میں کشیدگی میں کمی لانے کے لیے فریقین پر تحمل کا مظاہرہ کرنے پر زور دیا ہے۔ امریکہ، روس، چین، جرمنی اور ترکی سمیت متعدد ممالک کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں امن قائم رکھنے کی اپیلیں کی گئی ہیں۔
جرمن چانسلر اولاف شولس نے ایرانی شہر اصفہان پر مبینہ اسرائیلی حملے کے بعد کشیدگی میں کمی پر زور دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ برلن خطے سے کشیدگی میں کمی کے لیے اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔ شولس نے جمعے کے روز صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا، ''تعلق میں کمی مستقبل قریب میں دن کی ترتیب بنی ہوئی ہے اور ہم اس بارے میں اپنے تمام دوستوں سے بھی بات کریں گے اور ''اتحادی، اور اس سمت میں ان کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔‘‘
یورپی کمیشن کی سربراہ ارزولا فان ڈئیر لائن نے فن لینڈ کے دورے کے دوران صحافیوں کو بتایا، ''ہمیں ہر ممکن کوشش کرنا ہوگی کہ تمام فریقین اس خطے میں کشیدگی بڑھنے سے روکیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ بالکل ضروری ہے کہ خطہ مستحکم رہے اور تمام فریق مزید کارروائی سے گریز کریں۔
اٹلی کے وزیر خارجہ انتونیو تاجانی نے '' کشیدگی میں مکمل کمی‘‘ لانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ جی سیون ممالک اطالوی جزیرے کیپری پر ہونے والے مذاکرات میں اس پر بات کریں گے۔ اٹلی اس وقت جزیرے پر گروپ آف سیون ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔
تاجانی نے کیپری سے ایک ٹی وی چینل کو بتایا، ''ہم ہر ایک کو کشیدگی میں اضافے سے بچنے کے لیے محتاط رہنے کی دعوت دیتے ہیں۔‘‘ جب کہ برطانوی وزیر اعظم رشی سوناک نے کہا کہ وہ ان رپورٹس پر قیاس نہیں کریں گے کہ اسرائیل نے حملہ کیا ہے، انہوں نے فریقین سے پرسکون رہنے کی اپیل کی۔ سوناک نے کہا، ''یہ ایک تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال ہے، میرے لیے اس وقت تک قیاس آرائیاں کرنا درست نہیں ہوگا جب تک حقائق واضح نہیں ہو جاتے، اور ہم اتحادیوں کے ساتھ مل کر تفصیلات کی تصدیق کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘‘
ش ر⁄ ع ب، ک م (روئٹرز، اے پی، ڈی پی اے، اے ایف پی)