’پانچ کروڑ سے بھی زیادہ انسان شہری تنازعات سے متاثر‘
26 جنوری 2022اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے منگل کو شہری علاقوں میں شہریوں کے تحفظ کے بارے میں ہونے والے سلامتی کونسل کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شہری تنازعات کے ضمن میں افغانستان، لیبیا، شام اور یمن جیسے ممالک کی مثال دی۔ ان کا کہنا تھا کہ تنازعات میں گھرے علاقوں کے عوام زخمی یا ہلاک ہونے کے خطرات سے دو چار رہتے ہیں اور بسا اوقات عام شہریوں کو جنگجو سمجھ کر ان پر حملے کیے جاتے ہیں۔
دیگر کیسز میں انتہا پسند جنگجو دھماکہ خیز مواد استعمال کرتے وقت بالکل یہ کوشش نہیں کرتے کہ اس سے کم سے کم نقصان پہنچے بلکہ ان کے حملوں کا ہدف پُر ہجوم علاقے ہوتے ہیں اور ان مقامات پر حملے کےنتیجے میں شہریوں کو ایک طویل عرصے کے لیے معذوری یا پھر ہلاکت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہ حالات عام شہریوں کی ذہنی صحت کے لیے بہت مُضر ہیں اور اس کے سبب تنازعات کے شکار علاقوں کے شہریوں میں گہرے صدمات اور نفسیاتی مسائل پائے جاتے ہیں۔
بھلا دیے گئے شامی بچوں کے کھلونے فرضی تلوار اور سیاہ بینر
سب سے زیادہ متاثرہ علاقے
انٹونیو گوٹیریش نے شہری علاقوں میں جاری جنگوں کا ذکر کرتے ہوئے گذشتہ برس غزہ پٹی میں ہونے والی جھڑپوں کی مثال دی جس میں درجنوں اسکولوں اور صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات فراہم کرنے والے اداروں کو شدید نقصان پہنچا اور قریب 8 لاکھ افراد کے لیے پانی کی فراہمی کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے دوسری بڑی مثال ہندو کش کی ریاست افغانستان کی دی جہاں گذشتہ سال مئی میں دارالحکومت کابل کے ایک ہائی اسکول کے باہر ہونے والے دھماکے میں 90 طالب علم ہلاک اور قریب 240 دیگر افراد زخمی ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والے طالب علموں میں زیادہ تر لڑکیاں شامل تھیں۔
گوٹیریش نے کہا کہ اس قسم کی دہشت گردیوں اور حملوں سے عام شہریوں کو نقصان پہنچنے کے خطرات میں اُس وقت اور زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے جب جنگجو شہریوں کے اندر گھس کر شہری تنصیبات کے نزدیک عسکری ساز و سامان اور سہولیات نصب کر دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہری علاقوں کے تنازعات سے پیدا ہونے والے خطرات کا دائرہ کہیں زیادہ وسیع ہے۔
زخمی افغانستان کی ادھوری کہانی
محاصرے اور ناکہ بندیاں
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کا مزید کہنا تھا کہ تنازعات کے سبب عام شہریوں کے لیے مزید مشکلات کھڑی ہوگئی ہیں، جیسے کہ محاصروں اور ناکہ بندیوں کے خطرات۔ ان سے شہریوں کے لیے فاقہ کشی تک کی صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ اس کے شکار کروڑوں انسان اپنے گھر بار چھوڑنے اور مہاجرت اختیار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
گوٹیریش کے بقول، ’’ایسے شہری اندرون ملک بے گھر ہو کر نقل مکانی کرنے والوں اور تارکین وطن کی ریکارڈ تعداد کا ایک بڑا حصہ ہیں۔‘‘ اس کے علاوہ ماحولیات کو شدید نقصان پہنچانے کا ذریعہ وہ لاکھوں ٹن ملبہ بن رہا ہے جو ان حالات کے سبب پیدا ہوتا ہے۔
تیرہ برسوں میں غزہ کی چار جنگیں، اثرات کیا اور نقصانات کتنے؟
گوٹیریش کے بقول، ’’عراق میں موصل کے 80 فیصد مکانات کی تباہی کے چار سال بعد بھی اندازوں کے مطابق تین لاکھ شہری بے گھر ہیں۔‘‘ انٹونیو گوٹیریش نے ان اعداد و شمار کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ’’شہروں میں جنگ چھڑنے کی جو خوفناک انسانی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے، یہ ناگزیر نہیں بلکہ انتخاب ہے۔‘‘
بین الاقوامی انسانی قانون کا احترام
انٹونیو گوٹیریش نے جنگجوؤں پر زور دیا کہ وہ بین الاقوامی قانون کا احترام کریں جس کے تحت عام شہریوں اور بنیادی ڈھانچوں پر حملوں کی سخت ممانعت ہے۔ نیز اندھا دھند حملوں اور شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے پر سخت پابندی لگاتا ہے۔
گوٹیریش نے جنگجوؤں سے اپیل کی کہ وہ وسیع علاقوں میں دھماکہ خیز ہتھیاروں کے استعمال کو بند کریں اور ایسا کرتے وقت گنجان آبادی والے علاقوں پر اس کے اثرات کو نظر انداز نہ کریں۔ انسانوں اور ان کے رہائشی علاقوں کو کم سے کم نقصان پہنچانے کا طریقہ تلاش کریں۔
اُدھر انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کے صدر پیٹر مائیرر نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ شہری علاقوں میں جنگ کے ناقابل قبول نقصانات کے ثبوت موجود ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’اس صورتحال کا نوٹس لینے اور اس کے خلاف کارروائی کرنے کی بارہا اپیل کی جانے کے باوجود کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا اور شہری علاقوں میں جنگوں اورحملوں کے سبب شہری آبادی پر بہت گہرے منقی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔‘‘
زمینی طاقتوں کی فوجی غلبے کی خواہش، خلا بھی میدان جنگ بن گیا
انٹرنیشنل ریڈ کراس کمیٹی کے نائب صدر محمدو باؤمیا کا تعلق گھانا سے ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا، ’’تشدد اور بوکوحرام اور مغرب میں القاعدہ، صومالیہ میں الشباب اور اسلامک اسٹیٹ جیسے انتہا پسند گروپوں کی سرگرمیوں میں غیر معمولی اضافہ ان ممالک کے شہریوں کی زندگیوں کے لیے حقیقی خطرے کی نشاندہی کرتا ہے۔‘‘
محمدو کا مزید کہنا تھا کہ ریاست کے حمایت یافتہ جنگجوؤں اور مسلح گروہ کو جنگ کے اصولوں کا پابند بنانے کی کوشش کے باوجود افریقہ کے بہت سے شہری علاقوں میں لڑائی جاری ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ متحرب گروپ اپنے جھگڑوں میں شہری آبادی کو قربانی کا بکرا بناتے اور انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
سلامتی کونسل کے موجودہ صدر ملک کا موقف
سلامتی کونسل کی موجودہ صدارتی ذمہ داری ناروے کر رہا ہے۔ ناروے کے وزیر اعظم جوناس گاہر اسٹور منگل کو ’’شہری علاقوں میں شہریوں کے تحفظ ‘‘ کے موضوع پر ہونے والے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ شہریوں کا تحفظ ایک طویل المدتی ترجیح ہے۔
مسلم دنیا میں پائے جانے والے اختلافات کیسے دور ہو سکتے ہیں؟
دنیا کی کُل آبادی کے 50 فیصد لوگ شہری علاقوں میں آباد ہیں۔ ساتھ ہی شہری علاقوں میں جنگوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ناروے کے وزیر اعظم نے ان حقائق کی روشنی میں کہا کہ ’’ہمیں ان ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنا ہو گی۔ متحارب گروپوں اور مسلح جھڑپوں کے فریقین کو بین الاقوامی انسانی قانون کا پابند بنانا ہو گا۔ یہ تمام ریاستوں کی ذمہ داری ہے۔‘‘
ک م/ ص ز/ (اے پی ا)