’عورت ہو عورت ہی رہو‘ یہ جملہ بہت متنازعہ ہے۔ اس کے کئی مطلب ہیں لیکن اسے کسی بھی کسی خاتون کی توقیر بیان کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔ ایک مطلب ہمیں یہ باور کرانا ہے کہ ہم سے بڑوں نے جو معیارات ہمارے لیے مختص کر رکھے ہیں ہم پر ان سے باہر جا کر اپنی عقل اور سمجھ بوجھ کا استعمال کرنا شدت سے منع ہے۔ اب یہ معیارات کیا ہیں یا وہ حدود کیا ہیں، جن کا پالن کرنا ہم پر فرض ہے اور اگر ہم اس سے انحراف کریں تو اپنے عورت پن سے بغاوت کرنے کی قصور وار ٹھہرتی ہیں۔ چلیں ہم ذرا ان معیارات کی فہرست بناتے ہیں۔
ایک تو یہ کہ عورت کو صرف اطاعت کے لیے بنایا گیا ہے وہ بھی مرد کی اطاعت کے لیے۔ اب اس میں وہ چاہے عورت کا آقا ہو، باپ، شوہر، بھائی یا بیٹا ہو۔ برصغیر میں تو اس میں رشتے دار مردوں سے لے کر محلے کے چاچے، مامے اور تائے سب شامل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ عورت چونکہ جسمانی طور پر کمزور ہے اور طاقت میں مرد کا مقابلہ نہیں کر سکتی تو اسے چاہیے کہ خود پر ہونے والے ظلم اور زیادتی کو سہہ جائے کہ چارہ دل سوائے صبر نہیں۔ اگر وہ کسی بھی طرح کی بغاوت کرتی ہے تو اس معاشرے کو پورا حق ہے کہ وہ اسے اس بغاوت پر معتوب ٹھہرائے۔
اگر عورت معاشی طور پر گھر کے مردوں پر انحصار کرتی ہے تو بھی اسے اپنی رائے دینے اور اپنی مرضی کے فیصلے کرنے کا حق نہیں ہونا چاہیے۔ کئی بار میں نے اپنے گھروں میں دیکھا ہے کہ اگر عورتیں جائیداد، کاروبار یا کسی سماجی مسئلے پر اپنی رائے دینا چاہیں تو انہیں کم عقل کہہ کر ان کے 'عورت شیل‘ میں واپس بھیج دیا جاتا ہے۔
یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ اگر کوئی خاتون تعلیمی میدان میں آگے بڑھ جائے تو وہ اپنی اوقات بھول جاتی ہے اور خود کو مردوں کے برابر سمجھنے لگتی ہیں۔ جبکہ وہ جتنی بھی ڈگریاں حاصل کر لیں ان کا ناقص العقل ہونا تو سماجی، مذہبی اور تاریخی حوالوں سے ثابت ہے۔ اس لیے اکیسویں صدی میں بھی اگر کوئی عورت پڑھ لکھ کر مردوں سے زیادہ قابل ہونے کی کوشش کرے گی تو بھی اسے کبھی کلاس فیلوز، کبھی خاندان کے مرد اور کبھی تو کوئی مزدور یا رکشے والا بھی یہ بتانے سے باز نہیں آتا کہ آپ کچھ بھی کر لیں آخر پکانی تو آپ نے روٹیاں ہی ہیں۔
ایسا بھی کہا جاتا ہے کہ عورتوں کو معاشی خود مختاری بھی خراب کر دیتی ہے۔ وہ جب اپنا گھر، اپنی گاڑی، اپنی ملازمت یا اپنا کاروبار کرتی ہیں تو اس پورے سسٹم کو آنکھیں دکھانے لگتی ہیں۔ اور تو اور جب یہ کہیں باس بن کر کسی ادارے میں کام کرنے لگتی ہیں تو ان کی اتنی جرات ہو جاتی ہے کہ عقلِ کل مردوں پر حکم چلاتی ہیں۔ بھئی عورت کو عورت ہی رہنا چاہیے وہ کسی بھی سیٹ پر پہنچ جائے اسے ہر قدم پر ملنے والے مردوں کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے اسے آگے نکلنے کا موقع دیا۔عورتوں کو چاہیے کہ وہ چاہے جتنا بھی کما رہی ہوں، جتنی بھی تعلیم یافتہ ہوں اپنا معیار رشتے کے لیے اونچا نہیں کرنا چاہیے۔ یہ جو آئیڈیلزم ہوتا ہے نا یہ بہت خراب کرتا ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ مالی، ذہنی اور سماجی طور پر کم سے کم تر درجے کے رشتے کو بھی ہاں کر دیں کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کریں گی تو ان کی شادی نہیں ہو گی۔ صرف ایک نکاح ہی ایسا ٹوکن ہے جو یہ ثابت کرے گا کہ وہ عورت ہے اور وہی والی عورت ہے جسے عورت ہوتے ہوئے عورت رہنا آتا ہے۔
یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ عورتوں کوخواتین کے حقوق کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیے۔ انہیں یہ یاد دہانی بھی کرائی جاتی ہے کہ کون سے ایسے حقوق ہیں جو یہ معاشرہ انہیں نہیں دے رہا۔ وہ جی رہی ہیں سانس لے رہی ہیں انہیں'باعزت‘ طور پر گھر میں بٹھا رکھا ہے۔ زندگی کی تمام سہولتیں انہیں میسر ہیں اور کیا چاہیے بھئی انہیں۔ معاشرے کی اکثریت کے ذہن میں یہ بات ڈال دی گئی ہے کہ عورتیں تو کپڑوں، جوتوں اور زیور کی باتیں کرتی ہوئی ہی جچتی ہیں۔ دوسرا یہ کہ مردوں کی برابری کا شوق پالے گھر سے نکلنے والی عورتیں بھی کوئی شریف عورتیں ہوتی ہیں بھلا؟
یہ اور اس طرح کی بہت سی باتیں آپ سنتے ہوں گے، کئی بار کرتے بھی ہوں گے۔ پھر ہم میں سے ہی کچھ لوگ جب کسی فورم پر پہنچتے ہیں تو یہ زہر اگلتے پھرتے ہیں۔ پھر ان کے منہ سے عورتوں کے لیے 95 فی صد جاہل ہونے کی خبر بھی آپ کو ملتی ہے۔ تو کبھی ان کے کردار کو دو ٹکے کا کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے۔ جو اپنے لیے آواز اٹھائے اسے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور کچھ کو تو اسی وجہ سے جان سے مار بھی دیا گیا ہے۔ ایسے میں فیض احمد فیض کا یہ شعر بہت کچھ سمجھا جاتا ہے۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
لہٰذا ہم عورتوں پر اب یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ سماج کے طے شدہ پیمانوں کو قبول کیے بغیر اپنے لیے جینے کا سامان پیدا کریں تاکہ ہماری آئندہ نسلیں اس صنفی امتیاز سے لڑے بغیر زندگی گزارنے کا ڈھنگ اختیار کر سکیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔