غزہ سیز فائر مذاکرات، مصری وفد اسرائیل میں
26 اپریل 2024اسرائیل سے موصولہ رپورٹس کے مطابق مصری حکومت کا ایک اعلیٰ سطح کا وفد آج بروز جمعہ اسرائیل پہنچا ہے اور اس کا مقصد غزہ میں سیزفائر کے لیے اسرائیل اور عسکریت پسند تنظیم حماس کے مابین ایک معاہدے کے حوالے سے مذاکرات کی بحالی ہے۔
غزہ میں فائر بندی کے لیے مذاکرات جمود کا شکار کیوں؟
مصر حماس اور اسرائیل کے مابین مہینوں سے جاریتنازعے میں ایک ثالث کا کردار ادا کرتا رہا ہے، جس کی شروعات گزشتہ برس سات اکتوبر کو اسرائیل میں حماس کے ایک دہشت گردانہ حملے سے ہوئی تھی۔
اسرائیل کے مطابق اس حملے میں تقریباً 1,200 ہلاکتیں ہوئی تھیں اور قریب 250 افراد کو حماس کے جنگجو یرغمال بنا کر غزہ پٹی لے گئے تھے۔ ان یرغمالیوں میں سے کچھ کو رہا کر دیا گیا ہے، جبکہ متعدد اب بھی حماس کے قبضے میں ہیں۔
دوسری جانب غزہ میں حکام کا کہنا ہے کہ اس حملے کے بعد سے غزہ میں جاری اسرائیلی کارروائیوں میں ہلاکتوں کی تعداد 34,000 سے تجاوز کر چکی ہے۔
اس دوران مصر کے علاوہ قطر اور امریکہ بھی اسرائیل اور حماس کے مابین ثالث کا کردار ادا کرتے رہے ہیں، لیکن اب تک غزہ میں دیر پا سیزفائر کے حوالے سے کوئی انہیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
اب مصر کے ایک وفد کے اسرائیل جانے کی اطلاعات کے حوالے سے ذرائع نے خبر رساں ادار اے ایف پی کو بتایا ہے کہ اس دورے کا مقصد 'سکیورٹی کوآرڈینیشن‘ ہے۔
علاوہ ازیں مصر کے ایک حکومتی اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر خبر رساں ایجنسی دی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کے اس وفد کی قیادت مصر کے اعلیٰ سطح کے اینٹیلجنس کے اہلکار عباس کمال کر رہے ہیں اور وہ اسرائیلی حکام کے ساتھ غزہ میں دیر پا سیز فائر کے حوالے سے بات چیت کریں گے۔
ان کے مطابق ان مذاکرات میں پہلے حماس کے قبضے سے اسرائیلی یرغمالیوں اور اسرائیلی جیلوں سے فلسطینیوں کی رہائی اور بے گھر ہوئے فلسطینیوں کے شمالی غزہ واپسی پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ امید کی جا رہی کہ اس مرحلے کے بعد بھی مذاکرات کا سلسلہ جاری رہے گا، جس کا مقصد غزہ میں جنگ کے خاتمے کی ایک ڈیل کا طے کرنا ہو گا۔
دریں اثنا، اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق ملک کی جنگی کابینہ میں غزہ میں سیزفائر کے لیے ایک نئے معاہدے کے حوالے سے بات چیت کی گئی ہے۔ تاہم اسرائیلی حکومت کے ایک اہلکار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اسرائیل معاہدے کے حوالے سے کوئی نئی تجاویر پیش نہیں کرے گا لیکن وہ حماس کے قبصے سے 33 یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ایک محدود معاہدے پر غور کر سکتا ہے۔
رفح میں زمینی کارروائی کی تیاری
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب اسرائیل مصر کی سرحد کے قریب واقع غزہ کے شہر رفح میں زمینی کارروائیوں کی تیاری کرتا نظر آ رہا ہے۔
رفح وہی شہر ہے جہاں غزہ پٹی کی 2.3 ملین کی آبادی میں سے نصف سے زیادہ فلسطینی شہری پناہ لیے ہوئے ہیں۔
مصری ذرائع کے مطابق اسرائیل کے دورے کے دوران عباس کمال یہ واضح کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں کہ 'غزہ اور مصر کی سرحد پر اسرائیلی فوجیوں کی تعیناتی ''برداشت نہیں کی جائے گی۔‘‘
اس حوالے سے حماس کے ایک سینیئر اہلکار حماد غازی نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل رفح میں 'اپنے مقاصد پورے نہیں‘ کر پائے گا۔ انہوں نے خبر دار بھی کیا کہ رفح میں اسرائیل کی زمینی کارروائی سے سیزفائر کے لیے جاری مذاکرات کو 'یقینی طور پر خطرہ‘ ہو گا اور اس سے یہ بھی ظاہر ہو گا کہ 'اسرائیل جنگ جاری رکھنا‘ چاہتا ہے۔
حزب اللہ کا میزائل حملہ، اسرائیلی شہری ہلاک
اسی دوران اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیل اور لبنان کی سرحد کے قریب ایرانی حمایت یافتہ عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کی جانب سے کیے گئے میزائل حملے میں ایک اسرائیلی شہری ہلاک ہوگیا ہے۔
حزب اللہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ جمعرات کی شب اس کے جنگجوؤں نے ایک اسرائیلی قافلے پر حملہ کیا تھا۔
اسرائیلی فوج کے مطابق اس حملے میں ایک شہری زخمی ہوا تھا جو بعد میں چل بسا۔
یہ واقعہ ایک متنازعہ علاقے میں پیش آیا، جسے لبنان میں 'کفر شوبا‘ اور اسرائیل میں 'ہار ڈو‘ کہا جاتا ہے۔
م ا/ش ح/ ک م (اے ایف پی، اے پی)