غلامی کی نئی شکل؟ خلیجی عرب ملکوں میں مزدوروں کی حالتِ زار
24 اگست 2016سو سال قبل کے قطر میں غلامی کی صورتِ حال کی جھلکیاں دوحہ کے ’غلامی عجائب گھر‘ میں محفوظ ہیں۔ تب قطر کا ہر پانچواں شہری ایک غلام تھا لیکن آج بھی کفالہ نظام کے تحت کام کرنے والے مزدوروں کی حالت دیکھیں تو یہی لگتا ہے کہ یہ لوگ گویا ایک طرح کے غلام ہیں اور اُن سے بیگار لی جا رہی ہے۔
کیا وجہ ہے کہ اس عجائب گھر میں ایسی کوئی تصویریں نہیں ہیں، جو یہ دکھائیں کہ قطر میں 2022ء کی فٹ بال کی عالمی چیمپئن شپ کی تیاریوں میں مصروف آج کل کے مزدور کن حالات میں زندگیاں گزار رہے ہیں، میوزیم کے ڈائریکٹر فہد الترکی بتاتے ہیں: ’’ہم کوشش کرتے ہیں کہ کسی شخص کو مُوردِ الزام نہ ٹھہرائیں یا کوئی ایسی کہانی نکال کر سامنے نہ لائیں، جو متنازعہ ہو۔ ہم اس موضوع پر لوگوں کا شعور اُجاگر کرنا چاہتے ہیں، جو دورِ حاضر کا ایک موضوع ہے اور ہم سب کی دلچسپی کا ہے۔‘‘
قطر میں کفالہ سسٹم کے تحت غیر ملکی مزدور ہر اعتبار سے اپنے کفیل کے محتاج ہوتے ہیں۔ آیا یہ مزدور ملک سے باہر جا سکتے ہیں، کوئی اکاؤنٹ کھول سکتے ہیں یا ڈرائیونگ لائسنس کی درخواست دے سکتے ہیں، یہ سب کچھ صرف اور صرف کفیل کی رضامندی سے ممکن ہوتا ہے۔ اگر کوئی کسی بُرے اور آمرانہ مزاج کے کفیل سے چھٹکارا بھی پانا چاہتا ہے تو اُسے اُس کفیل کی اجازت درکار ہوتی ہے۔
ان میں سے کئی مزدوروں کے ساتھ بات چیت کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل کی آڈری گوگرن بتاتی ہیں: ’’جب یہ لوگ ملک سے باہر جانے کی کوشش کرتے ہیں تو کفیل اُنہیں ایسا نہیں کرنے دیتے کیونکہ اُن کے پاس اِن کے پاسپورٹ ہوتے ہیں۔ جن جن سے ہم نے بات کی، اُن میں سے کسی کے پاس بھی اپنا پاسپورٹ موجود نہیں تھا۔ یا پھر یہ لوگ واپس وطن جانے کی ہمت ہی نہیں کرتے کیونکہ وہاں قرضوں کا ایک بھاری بوجھ اُن کا منتظر ہوتا ہے۔‘‘
ایمنسٹی نے قطر میں غیر ملکی مزدوروں کی رہائش اور اجرتوں کے حوالے سے اطمینان ظاہر کیا ہے۔ دسمبر سے قطر میں نافذ العمل ہونے والے ایک نئے قانون کے تحت کفالہ سسٹم میں کی گئی اصلاحات مزدوروں کے حق میں جاتی ہیں۔ اب دیگر خلیجی ممالک میں بھی، جہاں مقامی آبادی اقلیت میں ہونے کی وجہ سے کفالہ نظام کو حالات کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھنے کا ایک اہم ذریعہ سمجھتی ہے، اصلاحات متعارف کروانے کی کوششیں نظر آ رہی ہیں۔